گھی چور ملازم

ایک بندہ کریانے کی ایک دکان پر ملازم تھا. وہ کسی نہ کسی بہانے دکان سے کچھ نہ کچھ چوری کرتا رہتا تھا. دکان کا مالک بڑا ہی خوش اخلاق اور امانتدار انسان تھا. وقت گزرتا گیا اور دس بارہ سال گزر گئے. اللہ نے مالک کو خوب برکت دی اور اس کی دکان شہر کی سب سے بڑی دکان بن گئی. روزانہ لاکھوں کی آمدن ہونے لگی. ایک دن اس ملازم کے گھر سے ٹفن میں کھانا آیا ہوا تھا. ملازم نے چوری سے ٹفن میں دیسی گھی ڈال دیا. اللہ کی شان کہ واپس لے جاتے ہوئے اس کے بچے سے ٹفن نیچے گر کر کھل گیا اور اس کی چوری پکڑی گئی. مالک کا بیٹا غصہ میں آ گیا اور ملازم کو برا بھلا کہنے لگا مگر مالک نے اپنے بیٹے کو سختی سے روک دیا اور کہا: " بیٹا! اسے چھوڑ دو. تمہیں آج پتہ چلا ہے کہ یہ چوری کرتا ہے مگر مجھے پچھلے بارہ سال سے معلوم ہے. اس کے باوجود میں نے اسے کبھی سمجھانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا. بس اتنا سوچو کہ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی روزانہ کی چوری کے باوجود بھی ہم کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور یہ بارہ سال چوری کرکے بھی آج تک ملازم کا ملازم ہی ہے." اسی طرح امانتدار انسان اپنی ایمانداری اور محنت کے ذریعے کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے مگر دھوکہ باز اور چور گندگی میں ہی پڑا رہ جاتا ہے. منقول!

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

ہم سب دنیا سے کوچ کرنے والے ہیں

ہم سب دنیا سے کوچ کرنے والے ہیں

رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: "میرا دنیا سے کیا تعلق؟ میری دنیا کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی سوار کسی درخت کے سائے میں ( دم لینے کے لیے) ٹھہر جائے، پھر اسے چھوڑ کر چلا جائے ـ " حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو وصیت فرمائی: (دنیا سے) گزر جاؤ ، اسے آباد کرنے میں نہ لگو ـ ایک آدمی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ـ ان کے گھر میں اِدھر اُدھر نظر دوڑانے لگا ( سامان نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی) تو پوچھا، آپ کا سامان کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: ہمارا ایک دوسرا گھر ( جنت) ہے، ہماری توجہ اسی طرف ہے ـ اس نے کہا، جب تک آپ یہاں ہیں ( کچھ نہ کچھ) سامان ضروری ہے ـ آپ نے فرمایا : گھر کا مالک ہمیں رہنے ہی نہیں دے گا ـ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے خطبے میں فرمایا: دُنیا تمہارا ٹھکانا نہیں ہے ـ اللہ تعالٰی نے اس کے لیے فنا لکھ دی ہے ـ اور دنیا کے لوگوں کے لیے سفر لکھ دیا ہے، کتنے ہی آباد گھر جلد ہی ویران ہوں گے اور کتنے ہی مکانوں میں رہنے والے جن پر رشک کیا جاتا ہے، بہت جلد کوچ کرجانے والے ہیں ـ اس لیے اچھی طرح کوچ کی تیاری کرو اور بہترین توشئہ سفر تقویٰ ہے اسی کو ساتھ لو ـ حضرت عطاء سلمیؒ دعا فرمایا کرتے تھے: اے میرے پروردگار! دنیا میں میری اجنبیت پر رحم فرما، قبر میں میری وحشت پہ رحم فرمانا اور کل جب تیرے سامنے پیشی ہوگی اس موقع پر رحم فرماناـ حضرت داؤد طائی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطوان ؒ بن عمرو تیمی سے پوچھا : (زندگی کے تعلق سے) کم سے کم اُمید کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : بس جتنی دیر ایک سانس چلتی ہے ـ حضرت فضیل بن عیاض ؒ سے جب یہ ذکر کیا گیا تو وہ رو پڑے اور کہا کہ حضرت عطوان ؒ موت سے بہت چوکنّا رہتے تھے اس لیے فرمایا، سانس چلنے تک یعنی وہ ڈرتے تھے کہ وہ سانس پوری ہونے سے پہلے ہی نہ مرجائیں ـ حضرت حبیب ؒ ابو محمد روزانہ وصیت کردیا کرتے تھے ( جیسے موت کے وقت کی جاتی ہے) کہ کون غسل دے گا وغیرہ وغیرہ اور صبح شام رویا کرتے تھے، ان کی بیوی سے رونے کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اللہ تعالٰی سے ڈرتے ہیں کہ شام ہوئی ہے شاید صبح نہ ہو اور صبح ہوگئی ہے تو شاید شام نہ ہو ـ حضرت حسن ؒ کا قول ہے: ابن آدم! تمہیں دو سواریاں سفر کرا رہی ہیں، رات،دن کے حوالے کرتی ہے اور دن رات کے، یہاں تک کہ دونوں ایک دن تمہیں آخرت کے حوالے کردیں گے ـ تم سے زیادہ خطرے میں کون ہے؟ امام اوزاعیؒ نے اپنے ایک بھائی کو لکھا: سمجھ لو کہ تمہیں ہر طرف سے گھرا جا چکا ہے، اور شب و روز برابر گھسیٹ کرلے جایا جارہا ہے، اللہ تعالٰی اور اس کا سامنا کرنے سے ڈرو ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : وقت کا بہترین استعمال (صفحہ نمبر ۱۶۲-۱۶۳ ) مصنف : محمد بشیر جمعہ انتخاب: اسلامک ٹیوب پرو ایپ