
اسرائیل-ایران تنازع: چھٹے روز دھماکوں کی گونج، ٹرمپ کا سخت مطالبہ
جنگ کا منظر: تل ابیب کے آسمانوں میں میزائلوں کی گھن گرج اور تہران کی گلیوں میں دھماکوں کی آوازیں چھٹے روز بھی جاری ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان یہ تنازع اب ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیلی حملوں سے ایران میں ہلاکتوں کی تعداد 240 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں 70 خواتین اور بچے شامل ہیں۔ دوسری جانب، ایرانی حملوں سے اسرائیل میں 24 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کا مطالبہ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے کہا: ’’ہمارے پاس اب ایران کے آسمانوں پر مکمل اور کلی کنٹرول ہے۔ ایران کو غیر مشروط ہتھیار ڈالنے چاہئیں۔‘‘ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکی فوج نے مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت میں اضافہ کیا اور اضافی جنگی طیاروں کے سکواڈرن تعینات کیے۔ رپورٹس کے مطابق، امریکی بی-52 بمبار طیارے بحر ہند کے ڈائیگو گارشیا جزیرے پر موجود ہیں، جبکہ مزید فوجی اثاثوں کی تعیناتی پر غور کیا جا رہا ہے۔ انسانی المیہ: ایران پر اسرائیلی حملوں نے شہریوں پر ناقابل بیان مصائب مسلط کیے ہیں۔ تہران اور دیگر شہروں میں بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے، جبکہ ہسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں۔ ایرانی وزارت صحت کے مطابق، مرنے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں، جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اسرائیل میں بھی ایرانی میزائل اور ڈرون حملوں نے خوف و ہراس پھیلایا ہے، اور شہری محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے پر مجبور ہیں۔ سفارتی امکانات: ٹرمپ کے سخت بیانات کے باوجود، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ سفارتی حل کے لیے ایک تنگ مواقع کا دریچہ اب بھی موجود ہے۔ تاہم، ایران نے اسرائیلی حملوں کے دوران مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ عالمی برادری، بشمول روس اور چین، نے ثالثی کی پیشکش کی ہے، لیکن تنازع کی شدت نے امن کی امیدوں کو دھندلا دیا ہے۔ نتیجہ: اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگ نے مشرق وسطیٰ کو ایک بارود کے ڈھیر پر لا کھڑا کیا ہے۔ ٹرمپ کی غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی مانگ اور امریکی فوجی طاقت کے اضافے نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ شہریوں کی ہلاکتیں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی اس تنازع کے انسانی المیے کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ عالمی برادری کو فوری سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ اس خونریزی کو روکا جا سکے، ورنہ یہ جنگ خطے اور دنیا کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔