
کولکاتہ لاء کالج عصمت دری کیس: پانچ اہم اپ ڈیٹس جو آپ کو جاننا ضروری ہیں
1. ملزمان کون ہیں؟ اس گھناؤنے جرم کے تین ملزمان کی شناخت ہو چکی ہے: مونوجیت مِشرا (31 سال)، جو کالج کا سابق طالب علم اور ترنمول کانگریس (TMC) کے طلبہ ونگ، ترنمول چھاترا پریشد (TMCP) کا سابق صدر رہ چکا ہے۔ وہ کالج کی طلبہ یونین سے منسلک تھا اور اکثر کالج کا رخ کرتا رہتا تھا۔ زیب احمد (19 سال)، ایک فرسٹ ایئر کا طالب علم، جو کولکاتہ کے ٹوپسیا علاقے کا رہائشی ہے۔ وہ مونوجیت کے ساتھ طلبہ یونین کی سرگرمیوں میں شامل تھا۔ پرمیت مکھرجی (20 سال)، سیکنڈ ایئر کا طالب علم، دونوں متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترنمول کانگریس کے طلبہ ونگ کے صدر ترننکر بھٹاچاریہ نے مونوجیت کے ساتھ کسی بڑے عہدے کا تعلق ہونے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہمارا ایک سابق طالب علم ایسی سنگین حرکت کر سکتا ہے۔ وہ ہمارے طلبہ ونگ کا فعال رکن نہیں تھا۔‘‘ تاہم، اس کیس نے سیاسی ہلچل کو جنم دیا ہے، جہاں اپوزیشن لیڈر سوویندو ادھیکاری نے کولکاتہ پولیس اور ریاستی حکومت پر سخت تنقید کی ہے۔ 2. ملزمان کی گرفتاری اور ریمانڈ: پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے دو ملزمان، مونوجیت مِشرا اور زیب احمد، کو 26 جون 2025 کو سدھارتھ شنکر رائے شیشو ادھیان سے گرفتار کیا۔ تیسرے ملزم، پرمیت مکھرجی، کو 27 جون کی صبح اس کے گھر سے حراست میں لیا گیا۔ تینوں ملزمان کو اسی شام علی پور کورٹ میں پیش کیا گیا، جہاں پولیس نے 14 دن کے ریمانڈ کی درخواست کی، لیکن عدالت نے منگل، یکم جولائی تک کے لیے انہیں جوڈیشل کسٹڈی میں بھیج دیا۔ کولکاتہ پولیس نے کالج کیمپس کو سیل کر دیا ہے، اور گارڈ روم سے تمام شواہد جمع کر لیے گئے ہیں۔ ملزمان کے موبائل فونز ضبط کر لیے گئے ہیں، اور کالج کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی بھی جانچ کی جا رہی ہے تاکہ مزید شواہد مل سکیں۔ کسبا تھانہ پولیس نے ایف آئی آر درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ 3. ایف آئی آر کی تفصیلات: واقعہ 25 جون 2025 کی رات 7:30 سے 10:50 بجے کے درمیان پیش آیا۔ متاثرہ طالبہ کے مطابق، مونوجیت مِشرا نے اس کے سامنے شادی کا پیشنهاد رکھا تھا، جسے اس نے مسترد کر دیا۔ مونوجیت نے اسے بات کرنے کے لیے کالج میں رکنے پر قائل کیا۔ طالبہ کالج یونین کے کمرے میں اس کا انتظار کر رہی تھی جب مونوجیت، زیب، اور پرمیت وہاں پہنچے۔ مونوجیت نے طالبہ کو زبردستی گارڈ روم میں لے گیا، جہاں اس نے دروازہ بند کر کے اس کے ساتھ عصمت دری کی۔ زیب اور پرمیت نے باہر پہرہ دیا۔ ملزمان نے نہ صرف یہ گھناؤنا جرم کیا بلکہ طالبہ کا فحش ویڈیو بھی بنایا اور اسے وائرل کرنے کی دھمکی دی۔ طالبہ نے ہاتھ جوڑ کر رہائی کی التجا کی، لیکن ملزمان نے اس کی ایک نہ سنی۔ اس وقت کالج میں کوئی موجود نہیں تھا، جس سے ملزمان کی ہمت اور بڑھ گئی۔ 4. میڈیکل رپورٹ کے انکشافات: متاثرہ طالبہ کی میڈیکل جانچ کولکاتہ نیشنل میڈیکل کالج (سی این ایم سی) میں کی گئی، جس کی رپورٹ نے اس جرم کی سنگینی کو مزید واضح کیا۔ رپورٹ کے مطابق، طالبہ کے جسم پر زبردستی جسمانی تعلقات قائم کرنے، دانتوں سے کاٹنے، اور ناخنوں سے خراشیں مارنے کے نشانات پائے گئے۔ پولیس اس میڈیکل رپورٹ کو کیس کا سب سے اہم ثبوت مان رہی ہے۔ سرکاری وکیل سورین گوشال نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’اگر ایک ملزم عصمت دری کرتا ہے اور دیگر اس کی کسی بھی طرح مدد کرتے ہیں، تو یہ اجتماعی عصمت دری کا کیس مانا جائے گا۔‘‘ اس لیے اس کیس کو اجتماعی عصمت دری (گینگ ریپ) کے طور پر درج کیا گیا ہے، اور تینوں ملزمان کو برابر کا مجرم سمجھا جا رہا ہے۔ 5. احتجاج اور این سی ڈبلیو کا ردعمل: اس واقعے کی خبر پھیلتے ہی کالج کے طلبہ نے ملزمان کے خلاف شدید احتجاج شروع کر دیا۔ طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور متاثرہ طالبہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب، قومی کمیشن برائے خواتین (این سی ڈبلیو) نے اس کیس کا ازخود نوٹس لیا۔ این سی ڈبلیو کی چیئرپرسن ویجیا رہاٹکر نے کولکاتہ پولیس کمشنر کو خط لکھ کر فوری اور وقت پر مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ این سی ڈبلیو نے کہا: ’’یہ ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ ہم متاثرہ طالبہ کو طبی، قانونی، اور کاؤنسلنگ کی سہولیات فراہم کرنے اور اسے معاوضہ دلانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘ کولکاتہ پولیس کمشنر منوج ورما اور جوائنٹ سی پی (کرائم) روپیش کمار نے کیس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پولیس پوری شدت سے اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔ سیاسی تنازع اور آر جی کر کیس سے مماثلت: یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کولکاتہ ابھی آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہسپتال کے دلخراش عصمت دری اور قتل کے کیس سے سنبھلا بھی نہیں تھا۔ آر جی کر کیس میں ایک 31 سالہ پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ 9 اگست 2024 کو عصمت دری اور قتل کیا گیا تھا، جس نے ملک بھر میں احتجاج کی لہر دوڑا دی تھی۔ اس کیس کے مرکزی ملزم سنجے رائے کو 18 جنوری 2025 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن متاثرہ کے والدین اور کئی ڈاکٹرز نے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے موت کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔ آر جی کر کیس کے والد نے اس نئے واقعے پر گہری مایوسی کا اظہار کیا اور کہا: ’’ایسے واقعات بار بار ہو رہے ہیں۔ میری بیٹی کے ساتھ جو ہوا، اس کے بعد لوگ سڑکوں پر نکلے، لیکن پھر بھی یہ سلسلہ نہیں رکا۔ حکومت کو اس میں بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘ اپوزیشن لیڈر سوویندو ادھیکاری نے اس کیس کو کولکاتہ پولیس کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا، پولیس کی بڑی تعداد رتھ یاترا کے انتظامات کے لیے تعینات تھی۔ نتیجہ: ساؤتھ کولکاتہ لاء کالج کا یہ واقعہ نہ صرف ایک طالبہ کی عزت کو پامال کرنے کی شرمناک داستان ہے بلکہ خواتین کی حفاظت اور تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پولیس کی فوری کارروائی اور این سی ڈبلیو کے سخت رویے سے امید کی جاتی ہے کہ متاثرہ طالبہ کو انصاف ملے گا۔ لیکن یہ واقعہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ جب تک سماج اور نظام میں گہری تبدیلی نہیں آتی، خواتین کے لیے محفوظ ماحول ایک خواب ہی رہے گا۔ جیسا کہ ایک ایکس پوسٹ میں کہا گیا: ’’ہم اس شرمناک واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ کولکاتہ پولیس نے تینوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے، اور قانون کی پوری قوت کے ساتھ انصاف کو یقینی بنایا جائے گا۔‘‘ یہ کیس اب عدالت کے کٹہرے میں ہے، اور پوری قوم کی نظریں اس پر مرکوز ہیں کہ کیا انصاف کی یہ لڑائی ایک نئی مثال قائم کرے گی۔ ماخذ: انڈیا ٹوڈے: ٹائمز آف انڈیا: لا چکرا: ای این آئی: دی نیوز مل: