
آئی سی آئی سی آئی بینک کی سابق سی ای او چندا کوچر دوشی قرار: 64 کروڑ کی رشوت کا معاملہ
معاملے کی تفصیل: آئی سی آئی سی آئی بینک کی سابق سی ای او چندا کوچر کو ایک اپیلٹ ٹریبونل نے 3 جولائی 2025 کو جاری کردہ ایک فیصلے میں 64 کروڑ روپے کی رشوت لینے کا دوشی قرار دیا۔ یہ رشوت وڈیوکون گروپ کو 300 کروڑ روپے کا قرضہ منظور کرنے کے عوض لی گئی تھی، جسے ٹریبونل نے ’کچھ کے بدلے کچھ‘ (quid pro quo) کا واضح معاملہ قرار دیا۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے دعویٰ کیا کہ چندا کوچر نے بینک کی داخلی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ قرضہ منظور کیا اور اپنے شوہر دیپک کوچر کے وڈیوکون گروپ کے ساتھ کاروباری تعلقات کو چھپایا، جو بینک کے مفادات کے ٹکراؤ کے قواعد کی صریح خلاف ورزی تھی۔ رشوت کی کہانی: ٹریبونل کے مطابق، جون 2009 سے اکتوبر 2011 کے دوران آئی سی آئی سی آئی بینک نے وڈیوکون گروپ کی کمپنیوں کو مجموعی طور پر 3,250 کروڑ روپے کے قرضے منظور کیے، جن میں سے 300 کروڑ روپے کا ایک روپیہ ٹرم لون (آر ٹی ایل) وڈیوکون انٹرنیشنل الیکٹرانکس لمیٹڈ (وی آئی ای ایل) کے لیے 26 اگست 2009 کو منظور کیا گیا۔ اس قرضے کی منظوری کے اگلے ہی دن، وڈیوکون کی ایک کمپنی، سپریم انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ (ایس ای پی ایل) نے 64 کروڑ روپے دیپک کوچر کی کمپنی نیو پاور رینیوایبلز پرائیویٹ لمیٹڈ (این آر پی ایل) کو منتقل کیے۔ کاغذات پر این آر پی ایل کا مالک وڈیوکون کے چیئرمین وینو گوپال دھوت کو دکھایا گیا، لیکن ٹریبونل نے واضح کیا کہ اس کمپنی پر اصل کنٹرول دیپک کوچر کا تھا، جو اس کے مینجنگ ڈائریکٹر بھی تھے۔ ٹریبونل نے اس مالیاتی لین دین کو رشوت کا براہ راست ثبوت قرار دیا، کیونکہ یہ رقم قرضے کی منظوری کے فوراً بعد منتقل کی گئی۔ مزید برآں، چندا کوچر نے قرضے کی منظوری کے وقت اپنے شوہر کے وڈیوکون کے ساتھ کاروباری تعلقات کو ظاہر نہیں کیا، جو بینک کے اخلاقی ضابطوں اور مفادات کے ٹکراؤ کے قواعد کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں یہ بھی انکشاف کیا کہ چندا کوچر نے ممبئی کے چرچ گیٹ علاقے میں واقع سی سی آئی چیمبرز میں ایک فلیٹ محض 11 لاکھ روپے میں حاصل کیا، جو 1996 میں اس کی قیمت 5.25 کروڑ روپے تھی۔ یہ فلیٹ وڈیوکون گروپ سے منسلک ایک کمپنی نے چندا کے خاندانی ٹرسٹ کو منتقل کیا، جس کا مینجنگ ٹرسٹی دیپک کوچر تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چندا کے بیٹے نے 2021 میں اسی عمارت میں اسی منزل پر ایک فلیٹ 19.11 کروڑ روپے میں خریدا۔ سی بی آئی نے اسے بھی رشوت کا حصہ قرار دیا۔ ٹریبونل کا فیصلہ: اپیلٹ ٹریبونل نے نومبر 2020 کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا جس میں ای ڈی کی جانب سے منسلک کی گئی 78 کروڑ روپے کی جائیداد کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ٹریبونل نے کہا کہ اس وقت کی اتھارٹی نے اہم ثبوتوں اور حقائق کو نظر انداز کیا اور غلط نتیجہ اخذ کیا۔ ٹریبونل نے ای ڈی کے دعووں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جائیداد کی منسلک کاری مضبوط دستاویزی ثبوتوں اور واقعات کی واضح ٹائم لائن پر مبنی تھی۔ ٹریبونل نے اپنے فیصلے میں مزید کہا: ’’یہ معاملہ طاقت کے ناجائز استعمال اور اخلاقی ضابطوں کی خلاف ورزی کا واضح ثبوت ہے۔ قرضے کی منظوری، رقم کی منتقلی، اور دیپک کوچر کی کمپنی میں فنڈز کا منتقل ہونا ایک سوچی سمجھی سازش کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘ سماجی اور قانونی مضمرات: یہ فیصلہ چندا کوچر کے کیریئر پر ایک گہرا دھبہ ہے، جو کبھی ہندوستان کی سب سے کامیاب خاتون بینکرز میں شمار ہوتی تھیں اور 2015 میں ٹائم میگزین کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل تھیں۔ ایک ایکس پوسٹ میں کہا گیا: ’’چندا کوچر، جو کبھی آئی سی آئی سی آئی بینک کی کامیابی کی علامت تھیں، آج رشوت اور بدعنوانی کے الزامات میں گھری ہوئی ہیں۔ یہ ہندوستان کے بینکنگ سیکٹر کے لیے ایک سبق ہے کہ شفافیت اور جوابدہی کتنی ضروری ہے۔‘‘ اس معاملے نے نہ صرف آئی سی آئی سی آئی بینک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ ہندوستان کے بینکنگ سیکٹر میں کارپوریٹ گورننس اور ریگولیٹری نگرانی کے مسائل کو بھی اجاگر کیا۔ 2018 میں ایک گمنام واچ ڈاگ کی شکایت کے بعد چندا کوچر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا، اور بعد میں بینک نے ان کی برطرفی کو جائز قرار دیا، جس کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی کی۔ ماخذ: ٹائمز آف انڈیا: دی اکنامک ٹائمز: نیو 18: ایکس پوسٹس: