جھانسی آتشزدگی: "ایک بار تو مجھے اپنے بچے کا چہرہ دکھا دو..."، ماں کا دل دہلا دینے والا آہ و فغاں
جھانسی میڈیکل کالج میں آگ لگنے کے واقعے کے بعد، جہاں ایک سوگوار ماں نے اپنے نومولود بچے کے لاپتہ ہونے پر بے قابو ہو کر کہا، "ایک بار تو مجھے میرے بچے کا چہرہ دکھا دو..." جمعہ کی رات جھانسی میڈیکل کالج کے NICU وارڈ میں ایک خوفناک آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا، جس میں اب تک 10 بچوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ آگ کی شدت کے پیش نظر فائر بریگیڈ کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پانے کی کوششیں کیں، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ دور دراز سے آئے والدین کا اضطراب اور بے بسی جھانسی میڈیکل کالج اسپتال کے باہر لوگوں کا جم غفیر اکٹھا ہو چکا تھا، اور یہاں کا منظر کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ لوگ آہ و فغاں کر رہے تھے اور اشک بار آنکھوں سے اپنے بچوں کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ کئی والدین، جن میں ایک ماں اور باپ بھی شامل تھے، بے قابو ہو کر یہ دہائی دے رہے تھے کہ "ہمارا بچہ نہیں مل رہا، کوئی بتائے ہمارا بچہ کہاں ہے؟" یہ درد صرف ایک خاندان کا نہیں تھا، بلکہ ایسے درجنوں خاندانوں کا تھا جن کے کم سن بچے زندگی اور موت کے درمیان جھولے کھا رہے تھے۔ ان کے ذہنوں میں یہ سوال گھوم رہا تھا کہ ان کا بچہ زندہ ہے یا نہیں۔ "ایک بار تو میرے بچے کا چہرہ دکھا دو" ایسی ہی ایک ماں، جو ابھی حال ہی میں اپنے بچے کو جنم دے چکی تھی، انتہائی کمزور حالت میں دہائی دے رہی تھی، "ایک بار تو مجھے اپنے بچے کا چہرہ دکھا دو..."۔ اس ماں کی آواز میں ایسی تڑپ اور بے بسی تھی کہ وہاں موجود ہر شخص کا دل دہل گیا۔ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ زمین پر گر گئی، اور اس کا شوہر اُسے سہارا دینے کی کوشش کرتا رہا۔ 70 بچوں کی زندگی کا سوال ایک اور خاتون نے بتایا کہ "ہمارا بچہ 8 دن پہلے پیدا ہوا تھا اور ابھی تک نہیں مل سکا۔ ہماری حالت یہ ہے کہ نہ ہم اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھ پا رہے ہیں اور نہ ہی ہمیں یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔" اس کی باتیں سن کر دل لرز اُٹھا۔ وارڈ میں اس وقت 70 بچے موجود تھے، جنہیں فوراً نکالنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس دوران کئی بچے لقمہ اجل بن گئے۔ ان میں سے کچھ تو چند دنوں پہلے پیدا ہوئے تھے، کچھ ایک ہفتے کے بچے تھے، اور کچھ صرف 10 دن کی عمر کے تھے۔ خوف، بے یقینی اور ماں کا درد ان والدین کی سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ان کے بچوں میں سے وہ 10 بچے جو ہلاک ہو چکے ہیں، ان میں ان کا بچہ بھی شامل ہے یا نہیں۔ کئی والدین نے بتایا کہ انہیں اپنے بچوں کی پہچان کے لئے کوئی نشانی نہیں ملی اور یہ عدمِ معلومات ان کی تکلیف کو بڑھا رہی ہے۔ ایسا دکھ، ایسی بے بسی، اور ایسے لمحے، انسان کے دل و دماغ کو دہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے میں ہر ماں کا دل یہی کہتا ہے، "میرے بچے کا چہرہ تو دکھا دو، چاہے زندگی ہو یا موت، بس ایک بار مجھے اپنا بچہ دکھا دو۔" اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا اس ہولناک سانحے میں انسانی غفلت کا پہلو بھی تھا یا یہ قدرت کا فیصلہ تھا؟