
کیلیفورنیا کی جنگلاتی آگ: تباہی، انسانی المیہ اور اربوں کا نقصان
امریکہ کے کیلیفورنیا ریاست کے جنگلات میں لگنے والی آگ ایک عظیم تباہی میں تبدیل ہو چکی ہے، گویا کسی نے وہاں ایٹم بم گرا دیا ہو۔ اس قیامت خیز حادثے میں اب تک 11 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ 10,000 سے زائد عمارتیں تباہ یا شدید متاثر ہوئی ہیں۔ آگ نے 35,000 ایکڑ زمین کو جلا کر راکھ کر دیا ہے، اور تقریباً 153,000 لوگوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ آگ کی شدت اور کنٹرول کی کوششیں یہ آگ 7 جنوری کو لاس اینجلس کے جنگلات میں شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے چھ مختلف علاقوں تک پھیل گئی۔ حکام کے مطابق، "پیلسیڈز" کی آگ کا 8% اور "ایٹن" کی آگ کا 3% حصہ قابو میں لایا جا چکا ہے، لیکن مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ آگ کے سبب پورے علاقے میں ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی ہے، اور متاثرہ افراد کو جلد اپنے گھروں کو چھوڑنے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔ متاثرین کے جذبات جنگل کی آگ نے کئی خاندانوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ 44 سالہ کیلی فوسٹر نے اپنے تباہ شدہ گھر کو دیکھ کر کہا، "یہ ہمارا گھر ہوا کرتا تھا، جو محبت اور یادوں سے بھرا تھا، لیکن اب یہ ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے۔" ان کی 16 سالہ بیٹی ایڈا کہتی ہیں، "جب میں نے گھر کے اندر جانے کی کوشش کی، تو دھوئیں اور جلے ہوئے سامان کی بو نے مجھے بیمار کر دیا۔" اسی طرح، 63 سالہ ڈینس ڈاؤس نے بتایا کہ وہ اپنے تباہ شدہ گھر میں کچھ باقیات تلاش کرنے کے لیے بے چین ہیں، لیکن حکام نے حفاظتی خدشات کے باعث انہیں وہاں جانے سے روک دیا ہے۔ حکومتی بیانات امریکی صدر جو بائیڈن نے اس سانحے کو "جنگ کے مناظر" سے تعبیر کیا ہے۔ نائب صدر کملا ہیرس نے کہا کہ اس تباہی کے اثرات کئی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ حکام کے مطابق، 12 جنوری تک تیز ہواؤں کی شدت میں کمی کی امید ہے، جو آگ پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ معاشی نقصان ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس آگ سے ہونے والا مالی نقصان 135 سے 150 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ متاثرین کے لیے یہ نقصان صرف مالی نہیں بلکہ جذباتی بھی ہے، اور کئی لوگ اپنی زندگیوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ آگ ایک یاد دہانی ہے کہ قدرتی آفات کے آگے انسان کس قدر بے بس ہو سکتا ہے۔