mohammad Ali jinah

Naats

آیۃ القران

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (۱۱)(سورۃ الضحیٰ)

اور جو تمہارے پروردگار کی نعمت ہے، اُس کا تذکرہ کرتے رہنا- (۱۱)(آسان ترجمۃ القران)

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسٌ تَجِبُ لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ رَدُّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ(مسلم شريف/ كتاب السلام)

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے پانچ حق ایسے ہیں جو اس کے بھائی پر واجب ہیں، سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا، دعوت قبول کرنا ، مریض کی عیادت کرنا اور جنازوں کے ساتھ جانا۔(تفہیم المسلم/ج:۳)

Download Videos

​​​​​​جب نیک بنیں گے تب ایک بنیں گے:

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک اصول ذہن میں رکھ لیں کہ میاں بیوی کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ ہم ایک بن جائیں ۔جسم ایک ہوجائیں،ہم ایک دوسرے پر قربان ہوں،ہم ایک دوسرے سے پیار محبت کی زندگی گزاریں، ہمارے دل ایک ہو جائیں، اس لیے یہ بات اپنے دلوں میں لکھ لیجئے۔ "جب نیک بنو گے تب ایک بنو گے"ـ جب تک طبیعتوں میں نیکی نہیں آئے گی دل ایک نہیں بن سکتے۔ نیک بنو گے تو ایک بنو گے اس لیے میاں کو چاہیے کہ وہ بھی نیک بنے اس کے دل میں خوفِ خدا ہو اور بیوی کے دل میں بھی خوف خدا ہو۔ اس لیے سورۃ النساء کو پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو ہر چند آیتوں کے بعد اِتقِ اللّـٰهَ•اِتقِ اللّـٰهَ•اِتقِ اللّـٰهَ کا لفظ ملے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالٰی جانتے تھے کہ جب تک میاں بیوی کے دل میں اللہ کا خوف نہیں ہوگا یہ اس وقت تک ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت کی زندگی نہیں گزار سکیں گے ـ بعض بزرگ فرماتے تھے کہ جو عورت ایک اللہ کی بندی نہیں بنتی اس کو پھر ہزاروں کی بندی بننا پڑتا ہے اب یہ دفتروں میں کام کرنے والی عورتوں کو دیکھیں! بے چاری سیل گرل بنتی ہیں کیسے کیسے گاہکوں کی مختلف انداز سے منت سماجت کرتی ہیں ـ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اہم مسئلہ

مکان اور دوکان میں قرآنی آیات جیسے: هذا من فضل ربي وغیرہ آویزاں کرنا یا لکھنا مکروہ ہے، اور اگر ایسی جگہ پر آویزاں کرے جہاں تصویریں ہوں یا ٹی وی چلایا جاتا ہو تو جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس سے قرآن کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ (اہم مسائل/ج:۲/ص:۲۵۱)