Wo nabiyon me rehmat laqab

Naats

آیۃ القران

فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(۵)إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(۶)

چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے، (۵) یقیناً مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے(۶)

حدیث الرسول ﷺ

قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ "‏ أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ، كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعَّفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأَبَرَّهُ، وَأَهْلِ النَّارِ كُلُّ جَوَّاظٍ عُتُلٍّ مُسْتَكْبِرٍ ‏"‏‏.‏(بُخاری شریف۔ ۶۶۵۷)

نبیﷺ نے پوچھا: کیا میں تم کو جنتی نہ بتلاؤں؟ (وہ) ہر کمزور، کمزور گردانا ہوا ہے، اگر اللہ پر قسم کھالے تو اللہ تعالی ضرور اس کی قسم پوری کریں ( اور اللہ کی صفات بندوں کو اپنانی چاہئے، اسی لئے ابرار المقسم مستحب ہے ) اور کیا میں تمہیں دوزخی نہ بتلاؤں؟ وہ ہر اکھڑ مزاج ، اکڑ کر چلنے والا، گھمنڈی ہے!(تحفۃالقاری)

Download Videos

تحقیق المسائل

سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرمﷺ پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔ اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔ جواب: یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبیﷺ پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضورﷺسے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منت

اہم مسئلہ

ملازم کو تنخواہ طے کیے بغیر رکھنا جائز نہیں ہے اس سے معاملہ فاسد ہو جائے گا ، عقد کے وقت ہی تنخواہ طے کرنا ضروری ہے اور طے نہ کرنے کی صورت میں وہ اجرتِ مثل کا مستحق ہوگا‌ یعنی ایسا آدمی اتنی ہی ذمہ داری کے ساتھ دوسری جگہ کام کرتا اور اس کو جو تنخواہ ملتی اسی کا مستحق ہوگا۔(ماخوذ از : کاروباری مسائل اور اُن کا شرعی حل قسط اول/ ص:۹۳)