Mai Gawahi deta hu k eak hi Allah he aur aakhri rasool he Muhammad sallallah

Naats

آیۃ القران

وَ مَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّكْفَرُوْهُ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ(۱۱۵)(سورۃ آل عمران)

وہ جو بھلائی بھی کریں گے، اس کی ہرگز ناقدری نہیں کی جائے گی، اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے۔ (۱۱۵)(آسان ترجمۃ القران)

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ(ابو داؤد شریف : ۲۴۸۴)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کا بیان ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق کے لیے قتال کرتا رہے گا اور وہ اپنے مقابل آنے والوں پر غالب رہیں گے حتیٰ کہ ان کا آخری گروہ مسیح دجال سے لڑائی کرے گا ۔‘‘

Download Videos

تحقیق المسائل

سوال:ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرمﷺ پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔ اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔ جواب: یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبیﷺ پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضورﷺسے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منت

اہم مسئلہ

سلام کرنے پر نیکی؟ اگر پورا سلام کرے گا، یعنی ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ تو تیس نیکیاں ملیں گی ، اور اگر سلام میں دو کلمات کا تلفظ کیا ہے ، یعنی ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ تو بیس نیکیاں ملیں گی ، اور اگر صرف ”السلام علیکم کہا ہے، تو صرف دس نیکیاں ملیں گی ۔(کتاب النوازل/ج:۶/ص:۲۳۴)