جو در کعبے کا کھلوائے اسے فاروق کہتے ہیں جو رب کا دین منوائے اسے فاروق کہتے ہیں نگاہ انتخاب ہے وہ نبوت کی نگاہوں کا اثر ہے جو محمد پاک کی پیاری دعاؤں کا فخر ہے جو محمد پاک کی شریعت کے گواہوں کا جو محسن ہے حکومت کے ایوانوں بادشاہوں کا جو عدوِ دین تڑپائے اسے فاروق کہتے ہیں جسے مانگا خدا سے اس کے آفاقی پیغمبرنے دعائے نبی کی لاج رکھی اس مرد قلندر نے عرب کے مرد حر نے اور حقیقت کے سکندر نے جس کے حکم کو مانا ہواؤں نے سمندر نے جو خشک دریا چلوائے اسے فاروق کہتے ہیں دمِ ہجرت وہ نکلا اور للکارا پجاری کو ابوجہل ،ابو لہب ، ہر بد بخت ناری کو حلالی ہو تو روکو آج عمر کی اس سواری کو میں موتیں بانٹنے نکلا ہوں بتادو ہر بھکاری کو جو کفر کے چھکے چھڑوائے اسے فاروق کہتے ہیں میرا ایمان ہے الطاف میرا یہ عقیدہ ہے پڑھا آپ کی مدحت میں، میں نے جب قصیدہ ہے جو سن کے جھوم اٹھتا ہے خوشا اس کا نصیبا ہے جو جل جائے تو سمجھ لینا شر اس نے خریدا ہے منافق جس سے جل جائے اسے فاروق کہتے ہیں جو در کعبے کا کھلوائے اسے فاروق کہتے ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔۔۔۔ ✍: حافظ محمد الطاف منہاس رح

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

چشمِ خطا پوش :

چشمِ خطا پوش  :

ایک شخص نے فضل بن ربیعؒ کے نام کا جعلی خط تحریر کیا، جس میں اپنے لئے ایک ہزار دینار کا حکم جاری کر کے دستخط کئے گئے تھے، وہ شخص خط لے کر فضل بن ربیع کے خزانچی کے پاس پہنچا، اس نے خط پڑھ ڈالا مگر اسے کوئی شبہ نہ گزرا، وہ ایک ہزار دینار اس کے سپرد کرنے ہی لگا تھا کہ اس دوران فضل بن ربیعؒ کسی کام سے خود وہاں آ پہنچا، خزانچی نے اس شخص کا تذکرہ اس کے سامنے کیا اور خط بھی دکھایا، فضل بن ربیعؒ نے خط دیکھنے کے بعد ایک نظر اس شخص کے چہرے پر ڈالی تو اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا، فضل بن ربیعؒ سر جھکا کر کچھ دیر سوچنے کے بعد خزانچی سے مخاطب ہوا " تمہیں معلوم ہے میں اس وقت تمہارے پاس کیوں آیا ہوں؟" خزانچی نے نفی میں گردن ہلادی، فضل بن ربیعؒ نے کہا،" میں تمہیں صرف یہ تاکید کرنے آیا ہوں کہ اس شخص کو رقم فوراً ادا کر کے اس کی ضرورت پوری کرو" خزانچی نے فوراً ہزار دینار تھیلی میں ڈال کر اس شخص کے سپرد کردیئے، وہ شخص ہکا بکا رہ گیا، گھبراہٹ کے عالم میں کبھی وہ فضل بن ربیعؒ کے چہرے کو دیکھتا اور کبھی خزانچی کے، فضل بن ربیعؒ قریب ہوکر اس سے مخاطب ہوا "گھبراؤ نہیں اور راضی خوشی گھر کا رخ کرو " اس شخص نے فرط جذبات سے فضل بن ربیعؒ کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہا، "آپ نے میری پردہ پوشی کی اور رسوا نہ کیا، روز قیامت اللہ آپ کی پردہ پوشی فرمائے اور رسوائی سے بچائے" یہ کہہ کر اس نے دینار لئے اور نکل آیا ـ ( المستطرف ص:۲۰۶) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : کتابوں کی درس گاہ میں (صفحہ نمبر ۹۴ ) مصنف : ابن الحسن عباسی ؒ