ایک بزرگ عالمِ دین، مفتی ابوالقاسم نعمانی ─ اکابر و اسلاف کی ایک زندہ مثال! دارالعلوم دیوبند میں حضرت حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد، سینئر اساتذہ اور صدر المدرسین جیسے اہل و لائق حضرات موجود تھے، مگر افغانستان کے وزیرِ خارجہ کو حدیث شریف پڑھانے اور اُن کے دستارِ فضیلت کے موقع پر امامت و قراءت کا شرف حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم کو نصیب ہوا۔ یہ بات یقینا قابلِ رشک اور حیرت انگیز ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی ایک سو ساٹھ سالہ تاریخ میں وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں بیک وقت مہتمم (ناظمِ اعلیٰ) اور شیخ الحدیث (صدر المحدثین) ہونے کا اعزاز حاصل ہے — اور وہ بھی انتہائی وقار و جامعیت کے ساتھ۔ آج ہم صرف اُن کی اس کامیابی اور اعزاز کی بات سنتے اور دیکھتے ہیں، مگر شاید یہ نہیں جانتے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں، کتنی محنتیں کی ہیں، اور آج بھی کر رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند آنے سے پہلے حضرت جہاں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے، وہاں حکومت کی طرف سے تنخواہ اور مراعات کا بہتر انتظام تھا۔ مگر انہوں نے تقریباً ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے سے انکار کر دیا اور معمولی مشاہرے پر ہی خدمتِ دین میں مصروف رہے۔ چونکہ ان کا تعلق ایک مشترکہ خاندانی نظام سے ہے، اس لیے انہیں اپنے والد محترم کے زمانے سے جاری عینک سازی (چشمہ بنانے) کے کاروبار میں بھی کچھ وقت دینا پڑتا تھا۔ نتیجتاً اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم تقریباً پانچ سال کے لیے موقوف رکھنی پڑی۔ ایک دین دار، سمجھدار باپ کے لیے یہ قربانی کتنی سخت ہوگی، اس کا اندازہ ہم شاید نہیں لگا سکتے۔ بعد میں بیٹے نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ الحمد للہ، وہ بھی نیک، متقی اور صاحبِ بصیرت ہے، جیسا کہ آج کل کے بہت کم صاحبزادے ہوتے ہیں۔ تعلیم ختم ہونے کے بعد بیٹے نے بھی کاروبار سنبھال لیا۔ اسی دوران حضرت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مقرر ہوئے۔ اب بھی حضرت کے والد کا پرانا کاروبار قائم ہے، بیٹے کا بھی وسیع کاروبار ہے جو اندرون و بیرونِ ملک پھیلا ہوا ہے۔ مگر کورونا کے بعد سے حضرت نے بیٹے کا دیا ہوا کوئی پیسہ لینا بند کر دیا۔ ناراضی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لیے کہ اب انہیں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اسی طرح دارالعلوم دیوبند سے جو معمولی وظیفہ ملتا تھا، وہ بھی شیخ الحدیث بننے کے بعد لینا چھوڑ دیا۔ ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی مدرسے کے مہتمم یا شیخ الحدیث بن جائیں تو بڑی آمدنی ہو جائے گی، مگر ان حضرات کو دیکھیں؛ جتنا ان کا مقام بلند ہوتا ہے، اتنی ہی ان کی زہد و تقویٰ اور اللہ سے وابستگی بڑھتی جاتی ہے۔ وہ شکر و عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور جھک جاتے ہیں۔ یہی فرق ہے ان میں اور ہم میں! اسی لیے وہ کامیاب ہیں، اور ہم محروم۔ یہ صاحبِ علم و عمل، زاہد و متقی شخصیت کی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے۔ حضرت کی زندگی میں ایسی بے شمار قربانیوں اور تیاگ کی داستانیں موجود ہیں۔ قریب کے لوگ جانتے ہیں کہ حضرت کی ایک بیٹی شدید بیمار ہے — بچپن سے ہی۔ اسے مکمل دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ آج بھی حضرت، ان کی اہلیہ اور وہی بیٹی — یہی اُن کا چھوٹا سا پرسکون گھرانہ ہے۔ قضا و قدر پر راضی، قناعت و اطمینان سے لبریز۔ حضرت فرمایا کرتے ہیں: “تم لوگ جو کچھ مجھ میں دیکھتے ہو، یہ سب میری اسی بیٹی کی خدمت کا فیض ہے۔” اور یہی ہے حضرت کی کامیابی و برکت کا اصل راز! اللہ تعالیٰ حضرت شیخ دامت برکاتہم کو صحت و عافیت کے ساتھ طویل بابرکت عمر عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت شوہر : والد : نانا : بیٹا : بھائی : خسر : بھتیجا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت شوہر : والد : نانا : بیٹا : بھائی : خسر : بھتیجا

نبی کریم صلی الہ علیہ سلم بحیثیت شوہر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہت ہی محبت سے پیش آتے تھے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ”میں تم میں سے اپنے اہل خانہ کیلئے سب سے بہتر ہوں“ ایک مرتبہ آپ اپنے گھر تشریف لائے اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پیالے میں ، پانی پی رہی تھیں ۔۔۔ آپ نے دور سے فرمایا.. حمیرا ! میرے لئے بھی کچھ پانی بچا دینا ... ان کا نام تو عائشہ تھا. لیکن نبی علیہ السلام ان کو محبت کی وجہ سے حمیرا فرماتے تھے .. ( پیار کا نام رکھنا بھی سنت ہے ) نبی کریم صلی الہ علیہ سلم بحیثیت والد: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مدینے میں آپ کے مکان سے ذرا فاصلے پر رہتی تھیں۔ فرمایا: لخت جگر ! تم بہت دور رہتی ہو۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں تمہیں اپنے قریب بلالوں۔ حضرت حارث کو یہ بات معلوم ہوئی تو عرض کیا: میرا جو مکان پسند ہو حاضر ہے۔ آپ نے حارث کو دُعائیں دیں اور پھر اپنی لخت جگر کو اپنے قریبی مکان میں بلا لیا۔ نبی کریم صلی الہ علیہ سلم بحیثیت بھائی: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ باندیاں پیش کی گئیں تو ان میں ایک باندی شیما دیر تک ٹکٹکی باندھے آپ کو دیکھتی رہیں، پھر بولیں جانتے ہو میں کون ہوں؟ میں تمہاری رضاعی (یعنی دودھ شریک) بہن شیما ہوں، آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ... آپ نے اپنی چادر مبارک اپنے ہاتھ سے بچھائی، بڑی بہن کو عزت کیساتھ بٹھایا، کچھ دیر باتیں کیں ، خوشی سے آپ کا چہرہ دمک رہا تھا۔ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم بحیثیت نانا: حسنین رضی اللہ عنہما نانا ( نبی علیہ السلام) کے پاؤں مبارک پر پاؤں رکھے کھڑے تھے ... آپ نے دونوں کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا بیٹو! اور اوپر چڑھ آؤ... وہ اوپر چڑھتے چڑھتے آپ کے سینے پر چڑھ آئے ... نانا جان نے پیار سے نواسے کا منہ چوما ... اور خدا سے التجا کی پروردگار! میں ان سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے پیار کر۔ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم بحیثیت بیٹا: نبی علیہ السلام کے پاس ایک بوڑھی عورت آئی، پھر نہایت عزت کیساتھ اس بوڑھی خاتون کو بٹھایا ... ایک صحابی نے یہ دیکھا تو پوچھا، یہ کون خاتون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قابل احترام خاتون حلیمہ سعدیہ ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پالا اور دودھ پلایا تھا ... نبی کریم صلی الہ علیہ سلم بحیثیت خسر: ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا: آپ اپنی بیٹی اور اپنے داماد دونوں میں سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم سے زیادہ مجھے فاطمہ محبوب ہے اور فاطمہ سے زیادہ تم مجھے عزیز ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت بھتیجا: غزوہ بدر کے قیدیوں میں آپ کے چچا عباس قید ہو کر آئے ... اُن کے ہاتھ پاؤں رسی اور زنجیروں سے جکڑے تھے، ان کے کراہنے کی آواز رحم دل بھتیجے کے کان میں پہنچ رہی تھی، آپ بے چینی میں بار بار کروٹیں بدل رہے تھے۔ صحابہ سمجھ گئے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی کراہوں نے آپ کو بے چین کر رکھا ہے۔ لوگوں نے عباس کے بندھن ڈھیلے کر دیئے۔ ان کے درد میں کمی آئی۔ کراہیں بند ہوئیں، تو رحمت دو عالم کو بھی آرام ملا اور آپ سو گئے ۔ ( بکھرے موتی ) (کتاب : ماہنامہ محاسن اسلام ستمبر۔ صفحہ : ۲۳۔ ناقل: اسلامک ٹیوب پرو ایپ)