*بیگم کی گرامر* اتفاقاً میرے ہاتھ سے گلاس چھوٹ گیا اور فرش پر گر کر ٹوٹ گیا۔ بیگم نے تیر کی طرح الزام کھینچ مارا “آپ ہمیشہ گلاس توڑ دیتے ہیں!” حالانکہ اس سے پہلے مجھ سے فقط ایک گلاس ٹوٹا تھا، اور وہ بھی ہماری شادی کے ابتدائی دنوں میں، یعنی آج سے کوئی پندرہ سال پہلے۔ کیا پندرہ سال میں کوئی واقعہ دو دفعہ ظہور پذیر ہو تو اسے “ہمیشہ” کہا جا سکتا ہے؟ لیکن زنانہ منطق کا اپنا ناپ تول ہوتا ہے۔ پھر یہ “ہمیشگی” کا الزام مجھ پر صرف گلاس شکنی کے سلسلے میں ہی عائد نہیں کیا گیا۔ یہی فردِ جرم مجھ پر کئی دوسری خاصی معصومانہ حرکات کے ضمن میں بھی لگ چکی ہے۔ “آپ غسل خانے کا نلکا ہمیشہ کھلا چھوڑ دیتے ہیں!” حالانکہ یہ غلطی پندرہ سال میں شاید تین یا چار بار ہوئی ہو گی۔ آپ ہمیشہ الماری کی چابی گم کر دیتے ہیں! یہ جرم فقط ایک دفعہ سرزد ہوا تھا۔ “آپ ہمیشہ کار میں پٹرول ڈلوانا بھول جاتے ہیں!” یہ حادثہ ایک دفعہ بھی نہیں ہوا تھا، محض پٹرول رک جانے پر بیگم صاحبہ کو شبہ ہوا کہ پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ لیکن نہیں، محترمہ “ہمیشہ” کا لفظ محض عادتاً استعمال نہیں کرتیں۔ ایسا ہوتا تو چند ایسے مواقع بھی ہیں جہاں یہ لفظ جائز طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور کرنا چاہیے، مگر مجال ہے جو بیگم صاحبہ اسے نوکِ زبان پر لائیں۔ مثلاً، ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو پوری تنخواہ بیگم کے حوالے کر دیتا ہوں، لیکن آج تک اس شریف زادی کے منہ سے یہ تعریف نہ سنی، یہ نہ نکلا کہ “آپ ہمیشہ تنخواہ لا کر میرے ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں۔” بلکہ اس ضمن میں کچھ فرماتی ہیں تو یہ کہ: خدایا! کب مہینہ گزرے اور چند ٹکوں کا منہ دیکھنے کو ملے! اسی طرح میرا معمول رہا کہ بیگم کو ہر ہفتے ایک نئی فلم دکھانے سینما لے جاتا ہوں، مگر مجال ہے جو اس “ہمیشگی” کا انہیں خیال تک آیا ہو۔ بلکہ الٹی شکایت کرتی ہیں: “ہائے! فلم دیکھے پورا ہفتہ ہونے کو ہے!” خدا جانے اس موضوع پر اپنے مرغوب لفظ “ہمیشہ” کو کیسے پی جاتی ہیں! ایک روز ڈرائنگ روم میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا کہ اتفاقاً تھوڑی سی راکھ قالین پر گر گئی۔ بیگم نے جھٹ الزام تراشی کی۔ آپ ہمیشہ قالین پر راکھ جھاڑ دیتے ہیں! میں نے کہا، “کبھی کبھی راکھ گر جانے سے تو مجھے انکار نہیں، لیکن اگر میں ہمیشہ اپنے چالیس سگریٹ روزانہ کی راکھ قالین پر جھاڑتا تو گزشتہ پندرہ سال میں اس ڈرائنگ روم میں تقریباً گیارہ ٹن راکھ کا ڈھیر لگ چکا ہوتا۔ اور اس صورت میں یہ ڈرائنگ روم کی بجائے کوئلہ سینٹر نظر آتا۔ لیکن بجائے اس کے کہ اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے کوئی معذرت کرتیں یا سیدھی سادھی معافی مانگتیں، کہنے لگیں تو سچ مچ اتنی راکھ جمع ہو جاتی؟ پھر تو اچھا ہوا، میں جوں توں کر کے ہر روز قالین صاف کرتی رہی! گویا محترمہ نے گیارہ ٹن فرضی راکھ ڈھونے کا کریڈٹ بھی اپنی جھولی میں ڈال لیا۔ چند روز ہوئے دفتر بند ہوا تو میں گھر جانے کی نیت سے کار میں بیٹھا، مگر انجن جواب دے گیا۔ ناچار کار کو دفتر ہی میں چھوڑا اور بس سے گھر روانہ ہوا۔ بس اسٹاپ سے گھر پہنچا، لیکن جونہی اندر قدم رکھا، بیگم چلائیں۔ “آپ ہمیشہ کیچڑ سے لتھڑے ہوئے جوتے پہنے ڈرائنگ روم میں داخل ہو جاتے ہیں!” یہ میری پیٹھ پر آخری تنکا تھا۔ میں نے اسی لمحے ایک فیصلہ کر لیا، اور اس فیصلے کی رو سے اب۔ ہمیشہ اپنا سگریٹ قالین پر جھاڑتا ہوں، اور بیگم صاحبہ کو سچ مچ یہ راکھ چننا پڑتی ہے جس سے انہیں دردِ کمر کی مستقل شکایت ہے۔ غسل خانے کا نلکا ہر روز کھلا چھوڑ آتا ہوں، اور بیگم بھاگم بھاگ بند کرتی رہتی ہیں۔ ہر روز عارضی طور پر چابیاں گم کر دیتا ہوں تاکہ بیگم صاحبہ تھوڑی دیر کے لیے سٹپٹائیں اور سٹپٹاتی رہیں۔ جہاں کہیں کیچڑ ملے، جوتوں پر مل کر ڈرائنگ روم میں آ جاتا ہوں۔ بیگم پاؤں پڑتی ہیں کہ “خدارا ایسا نہ کیجیے!” میں تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے لطف اٹھاتا ہوں۔ الغرض اب بیگم نے ان “ہمیشہ” والے الزامی جملوں کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ اب ان کا مرغوب فقرہ ہے: “آپ پہلے تو ایسا نہیں کرتے تھے!” ویسے میں یہ حرکتیں کرنا چھوڑ تو دوں گا، لیکن ابھی کچھ روز نہیں، تاکہ یہ سبق بیگم صاحبہ کو اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ ایک یا دو کو “ہمیشہ” کہنا درست نہیں، نہ حقیقت کے طور پر اور نہ گرامر کی رو سے۔ آخری خبر یہ ہے کہ بیگم صاحبہ کی گرامر بڑی تیزی سے سدھر رہی ہے۔ منقول

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں (فقہی پہلی)

جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں (فقہی پہلی)

دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں،یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے. قاضی نے پوچھا تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟ ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو. وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی. قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟ وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی،میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کرلی ساتھ یہ شرط رکھ لی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے،میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں. جج صاحب میری طلاق ہوگئی. کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کرلی،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے وکالت کا حق استعمال کرتے ہوئے پھوپھی کو طلاق دے ڈالی اور پھوپھی کے سابقہ شوہر سے شادی کرلی. قاضی حیرت سے پھر ؟ وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی. کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد(میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟ اس نے ہاں کرلی میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی(میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں،اس نے ایسا ہی کیا. میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی. قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟ میری پھوپھی کہنے لگی : قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلیا۔ قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے: مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا،طلاق بھی جائز ہے،وکالت بھی جائز ہے،طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے. اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی. (كتاب :جمع الجواهر في الحُصري) ____________📝📝____________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔