ہمارے بچپن کی وہ افواہیں ، جو آج بھی ہمیںں یاد آتی ہیں ۔😉😉 تو پھر چلیں ، مل کر وہ افواہیں ، وہ یادیں تازہ کرتے ہیں ۔ جیسے کہ: پینسل کے کچرے کو دراز میں رکھنے سے تتلی بن جاتی ہے ۔ 😂😂 تربوز (یا کسی پھل ) کا بیج کھا لیا تو پیٹ میں درخت اگ آئے گا۔😂😂 سبزیوں کے اتنے فوائد گنوائے جاتے تھے جو خود سبزیوں کو بھی پتہ نہیں ہونگے😂😂) چاند پر بڑھیا چرخا چلا رہی ہے ۔😁😁 چاندنی رات میں پریاں آئیں گی ۔😂😂 چارپاٸی پر چپل سمیت بیٹھ جانے سے سانپ آجاتا ہے ۔😂😂 ٹوٹا ہوا دانت گھر کی چھت پر پھینک کر یہ کہنے سے کہ: "چڑیا چڑیا پرانا دانت لے جا اور نیا دے جا" نیا دانت مل جاتا ہے ۔ 😁😁 ٹیچر کی کرسی پر بیٹھو گے تو فیل ہو جاو گے😂😂😜 پتیلی میں کھانا کھانے سے شادی میں بارش ہوتی ہے ۔😂😂 قینچی کو خالی چلانے سے گھر میں لڑاٸی ہوتی ہے ۔😂😂 آلتو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو ، بولنے سے ٹیچر نہیں ماریں گی😂😂 نمک گرتے ہی پانی بہاؤ ورنہ قیامت کے دن پلکوں سے اٹھانا پڑے گا ۔😂😂 مغرب سے پہلے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ کیونکہ مغرب کے بعد سر کٹا نکلتا ہے اوروہ بچوں کو مار دیتا ہے ۔😂😂 پنسل کے کچرے کو دودھ میں پکانے سے ریزر بنتی ہے ۔😂😂 ہمارا اسکول قبرستان پر بنا ہوا ہے ۔😂 ’’جُھوٹ بولو گے، تو زُبان کالی ہوجائے گی ۔ 😂😂 حالانکہ بظاہر یہ بھی ایک جھوٹ تھا 😂😂 مچھلی کھانے کے بعد پانی مت پینا ورنہ وہ پیٹ میں تیرے گی ۔😂😂 کوئی آپ کے اوپر سے پھلانگے تو آپ کا قد چھوٹا رہ جائے گا 😂😂 اور مزید اب اس میں آپ اضافہ کر دیں #جاناں🦋

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

ایک نوجوان کی استقامت

ایک نوجوان کی استقامت

سمرقند کے اسی سفر میں ایک عالم ایک نوجوان کو اس عاجز(شیخ پیر ذو الفقار احمد نقشبندی) سے ملانے کے لیے لائے اور بتایا کہ یہ وہ خوش نصیب نو جوان ہے جو روسی انقلاب کے زمانے میں پانچ مرتبہ اذان دے کر کھلے عام نمازیں پڑھتا تھا۔ یہ سن کر اس عاجز کو حیرت ہوئی اور پوچھا: وہ کیسے؟ اس نوجوان نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹا دیا۔ ہم نے دیکھا تو اس کی پیٹھ کے ایک ایک انچ جگہ پر زخموں کے نشانات موجود تھے ۔ اس عاجز نے پوچھا: یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے اپنی داستان بیان کرنا شروع کی ۔ وہ کہنے لگا: جب میں نے پہلی مرتبہ اذان دی تو پولیس والے مجھے پکڑ کر لے گئے اور خوب مارا۔ میں جان بوجھ کر اس طرح بن گیا جس طرح کوئی پاگل ہوتا ہے۔ وہ جتنا زیادہ مارتے میں اتنا ہی زیادہ ہنستا ۔ ایک وقت میں کئی کئی پولیس والے مارتے مارتے تھک جاتے ، مگر میں اللہ کے نام پر مار کھاتے کھاتے نہ تھکتا ۔ مجھے بجلی کے جھٹکے بھی لگائے گئے ، مگر میں نے برداشت کر لیے۔ مجھے کئی کئی گھنٹے برف پر لٹایا گیا، مجھے پوری پوری رات الٹا لٹکایا گیا ، مجھے گرم چیزوں سے داغا گیا، میرے ناخن کھینچے گئے، مگر میں اس طرح محسوس کرواتا جیسے کوئی پاگل ہوتا ہے۔ میں جان بوجھ کر پاگلوں والی حرکتیں کرتا تھا۔ پولیس والوں نے ایک سال میری پٹائی کرنے کے بعد مجھے پاگل خانے بھجوا دیا۔ وہاں بھی میں نے ایک سال اسی طرح گزارا جتی کہ ڈاکٹر نے لکھ کر دے دیا کہ یہ شخص پاگل ہے، اس کا ذہنی توازن خراب ہے، یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا ، یہ اپنے آپ میں ہی مگن رہتا ہے۔ لہذا اب اس کو دوباره گرفتار نہ کیا جائے ۔ چنانچہ اس ڈاکٹر کی رپورٹ پر مجھے آزاد کر دیا گیا۔ جب میں باہر آیا تو میں نے ایک جگہ پر چھوٹی سی مسجد نما جگہ بنائی ، میں وہیں دن میں پانچ مرتبہ اذانیں دیتا اور پانچ نمازیں کھلے عام پڑھا کرتا تھا۔ اس عاجز نے بڑھ کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا: اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں ہوتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد یہ عاجز اس نوجوان کے چہرے کو بار بار دیکھتا اور اس کی ثابت قدمی پر رشک کرتا رہا۔ ازل سے رچ گئی ہے سر بلندی اپنی فطرت میں ہمیں کٹنا تو آتا ہے مگر جھکنا نہیں آتا (کتاب : ایمان و یقین کے تقاضے۔ صفحہ نمبر : ۱۴۹ - ۱۵۰ از افادات: حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی۔ انتخاب: اسلامک ٹیوب پرو ایپ۔)