✨پیدل چلو خواہ تمہیں کانٹوں پہ چلنا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!✨ ✍🏻قدیم کہاوت ھے کہ ،، صحتمند رھنا ھے تو پیر گرم اور سر ٹھنڈا رکھو ،،۔ میڈیکل سائینس اس بات کی تصدیق کرتی ھے کہ پیدل چلنے والے نہ صرف یہ کہ ذیابیطس ، بلڈ پریشر ، ھائی کولیسٹرول ، امراض قلب ، ھڈیوں کی کمزوری ، فالج اور بہت سے دیگر امراض سے بچے رھتے ہیں بلکہ صحتمند اور چاک و چوبند زندگی گزارتے ہیں ۔ موجودہ دور میں تیز رفتار زندگی نے انسان کو ،، مفلوج ،، کردیا ھے ۔ اب لوگوں کا پیدل چلنا بہت کم ہو گیا ھے ۔ پروفیشنل زندگی ایسی ہو گئی ہے کہ اکثر لوگ سارا دن بیٹھے رھتے ہیں ، کہیں آنا جانا ہو تو چھوٹے چھوٹے فاصلے بھی بائیک یا گاڑیوں میں طے کرتے ہیں ۔ اس طرز زندگی کے بھیانک نتائج کسی بیماری ، خاص طور پر بڑھاپے میں نکلتے ہیں ۔ آجکل ایسے بوڑھوں کی تعداد میں مسلسل بڑھ رھی ہے جو 60 سال کی عمر کے بعد اپنی باقی زندگی وھیل چئیر پہ گزارتے ہیں ، اور آخر دم تک دوسروں کے سہارے رھتے ھیں ۔ ایسا کیوں ھے ؟ اسکی وجہ یہ ھے کہ انسانی جسم میں 50٪ مسلز اور ھڈیاں ٹانگوں میں ھوتی ھیں ۔اسی طرح 50٪ اعصاب ، اور 50٪ خون کی نالیاں بھی ٹانگوں میں ہوتی ہیں ۔ ھماری ٹانگیں گردش خون کا سب سے بڑا نیٹ ورک ھیں ۔ ھماری پنڈلیاں ھمارا دوسرا دل ھیں ۔دل صاف خون کو جسم میں پمپ کرتا ھے تو ھماری پنڈلیاں نچلے دھڑ سے ناصاف خون کو واپس دل کی طرف پمپ کرتی ہیں ۔ اس طرح جب ھم چلتے ہیں تو ھمارے جسم میں گردش خون مکمل اور تیز تر رھتی ھے ، اور جسم کے ایک ایک خلیے کو بذریعہ خون غذائیت اور آکسیجن ملتی رھتی ھے ۔ اور ھمارا جسم تندرست و توانا رھتا ھے ۔ جب ھم اپنی ٹانگوں کو حرکت نہیں دیتے تو ھم اپنے جسم کی گردش خون کو سست کر دیتے ہیں ، جب ٹانگوں کے مسلز اور اعصاب کی حرکت کم رھتی ہے تو یہ بے حس اور کمزور ہونے لگتے ہیں ، ٹانگوں کے مسلز کمزور ہوکر سکڑنے لگتے ہیں ، دل پر خون پمپ کرنے کا بوجھ اور مشقت بڑھ جاتی ہے۔ اگر ھم کسی وجہ سے صرف دو ھفتے تک اپنی ٹانگوں پہ جسم کا بوجھ نہ ڈالیں ، انہیں حرکت نہ دیں تو ھماری ٹانگوں کے مسلز اور اعصاب کی کار کردگی 5٪ کم ہو جاتی ھے ۔ ھمارے جسم میں غذا کو توانائی میں تبدیل کرنے کا 70٪ عمل ھماری ٹانگیں اور پیر ہی سر انجام دیتے ہیں ۔ جب ھم اپنے پیروں اور ٹانگوں کو متحرک نہیں رکھتے تو اضافی کیلوریز ھمارے جسم میں جمع ہوتی رھتی ھیں جو کہ موٹاپے کا باعث بنتی ہیں ، کچھ لوگوں کی توند نکل آتی ھے اور موٹاپا انکیلیے وبال جان بن جاتا ھے ۔ یاد رھے کہ 50 سے ساٹھ سال کی عمر کے بعد موٹاپا کم کرنا نا ممکن ھے ، خواہ آپ فاقے کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس عمر میں پہنچ کر آپکی ٹانگوں کے کمزور مسلز آپکے بھاری بھرکم جسم کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رھتے ۔ نتیجہ آپ پہلے لاٹھی کا سہارا لیں گے اور پھر وھیل چئیر پہ آجائیں گے۔ بڑھاپے میں معذوری اور محتاجی سے بچنا ھے تو پیدل چلیں ، خواہ آپکو کانٹوں پہ چلنا پڑے۔ ٹانگوں کے مسلز کے سکڑ کر دبلا اور چھوٹے ہو جانے کے عارضے کو طبی اصطلاح میں سارکو پینیا (Sarcopenia) کہتے ہیں ۔ چالیس پچاس سال کی عمر کے بعد اسکا کوئی علاج نہیں ، آپ لاکھ خوراکیں کھائیں ، جتن کریں یہ کمی پوری ہونے والی نہیں سوائے اسکے جو مسلز بچے ہیں انکی کار کردگی بحال رکھی جائے۔ دوسرا بھیانک نتیجہ آپکی ہڈیوں کے کمزور ہوجانے کی شکل میں نکلتا ھے ، آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بوڑھے افراد جب گرتے ہیں تو انکی ران کی ہڈی یا کولہے کا جوڑ ٹوٹ جاتا ھے ، جو پھر نہیں جڑتا اور انکی باقی ساری زندگی بستر یا وھیل چئیر پہ گزرتی ہے۔ لکھنے کو اس موضوع پہ پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے ، اس تھوڑے لکھے کو ہی بہت جانیے۔ اگر آپ صحتمند رھنا چاھتے ہیں ، چالیس ، پچاس سال کی عمر کے بعد ، مفلوج کردینے والے خطرات سے بچنا چاھتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ چلیے ، اپنے جسم کا بوجھ ٹانگوں پہ ڈالیے ، اپنے پیروں کو متحرک رکھیے ۔ پیدل چلنے کا سٹینڈرڈ یہ ہے کہ اپ دس ہزار قدم روز چلیں ۔ تاکہ آپکی ٹانگوں اور پیروں کے مسلز مضبوط ، لچکدار اور طاقتور بنے رھیں ۔ چالیس سال کی عمر کے بعد آپ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہوتے ہیں ، اس وقت یہ مت دیکھیں کہ آپکے بال کتنے سفید ہو گئے ہیں ، چہرے اور جلد پہ کتنی جھریاں نمو دار ہو گئی ھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ آپکی ٹانگیں اور انکے مسلز اور اعصاب کتنے کمزور ہو گئے ہیں ۔ یوں سمجھیے کہ بڑھاپا ،، ٹانگوں ،، سے شروع ہوتا ھے ۔ کمزوری ٹانگوں سے بالائی جسم میں آتی ھے ۔ زیادہ سے زیادہ پیدل چلنے کی عادت ڈالیں ۔ چھوٹے چھوٹے فاصلے پیدل طے کریں بائیک یا گاڑی لمبے سفر کیلیے استعمال کریں ، پیدل نہیں چلنا پسند تو سائیکل لے لیجئیے۔ اسی طرح اپنے گھر کے بزرگوں کو بستر پہ مت لیٹا رھنے دیں ، انہیں چلنے کی تحریک دیں ، سہارا دیکر چلائیں ، بیٹھ سکتے ہیں تو انہیں کھڑا کریں ، کھڑے نہیں ہو سکتے تو اٹھا کر بٹھائیں ، ٹانگوں پہ بوجھ ڈالنے کی تلقین کریں ، ٹانگوں کی ورزش کروائیں ۔ چلنے پھرنے کے قابل ھیں ، تو انہیں متحرک رکھیں ، ادھر ادھر چھوٹے چھوٹے فاصلے پیدل طے کرنے کی ترغیب دیں ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

وہ میرا نام جانتا ہے:

وہ میرا نام جانتا ہے:

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے جب مدائن کو فتح کیا تو انہوں نے Announcement (اعلان) کروائی کہ جس مجاہد کے پاس جو مال غنیمت ہے وہ سب لا کر ایک جگہ جمع کروائے ، تاکہ ہم اسے تقسیم کریں ۔ لوگ مال غنیمت جمع کروانے لگ گئے ۔ تین دن گزر گئے محسوس یہ ہوا کہ اب اور کسی کے پاس کچھ نہیں۔ تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں ، ایک نو جوان آیا ، جس کے کپڑے بڑے معمولی سے محسوس ہوتے تھے۔ مالی اعتبار سے اتنا امیر آدمی نظر نہیں آتا تھا۔ معمولی کپڑے، پھٹے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے ایک کپڑے میں کچھ لپیٹا ہوا تھا ، وہ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ امیر قافلہ! یہ میں آپ کو دینے کے لیے آیا ہوں۔ جب انہوں نے اسے کھولا تو اس کے اندر دشمن بادشاہ کا تاج تھا ، گویا اس مجاہد نے اس بادشاہ کو قتل کیا اور اس کا تاج اس کے ہاتھ میں آگیا ، مگر لوگوں کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا۔ اگر یہ مجاہد چاہتا تو اس کو اپنے پاس رکھ لیتا اور ساری زندگی اس کے ہیرے اور موتی کاٹ کاٹ کر بیچ کر اپنی زندگی ٹھاٹ سے گزارتا، کیونکہ بادشاہوں کے تاجوں میں تو بڑے بڑے ڈائمنڈ ہوتے تھے۔ جب اس سادہ سے سپاہی نے وہ دیا تو سعد بن ابی وقاص رضي اللہ تعالٰی عنہ بڑے حیران ہوئے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں اور اتنی قیمتی چیز اس نے لا کر خود ہی دے دی ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا کہ اے مجاہد ! تیرا نام کیا ہے؟ جب اس سے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے تو اس نوجوان نے واپسی کے لیے اپنا رخ پھیرا اور دو قدم واپسی کی طرف اٹھا کر کہنے لگا: ” جس اللہ کی رضا کے لیے یہ تاج لا کر آپ کو واپس دیا وہ میرا بھی نام جانتا ہے، میرے باپ کا نام بھی جانتا ہے۔ یہ ہوتا ہے اللہ کے لیے کرنا ۔