
غزہ میں انسانی المیہ: اسرائیلی بمباری سے 56 فلسطینی شہید
واقعہ کی دل دہلا دینے والی تفصیلات: پیر کے روز طلوع فجر سے قبل غزہ کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی حملوں نے تباہی مچائی۔ رفح کے ’’فلیگ چوراہے‘‘ پر، جو غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے امدادی مرکز سے محض چند میٹر کے فاصلے پر ہے، اسرائیلی فوج نے صبح 4 بجے (01:00 GMT) بھوک سے نڈھال فلسطینیوں کی بھیڑ پر فائرنگ کی۔ دو فلسطینی، ہبہ جودہ اور محمد عابد، جنہوں نے اپنے خاندانوں کے لیے کھانا لینے کی کوشش کی، نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’’ہر طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ لوگ زمین پر گر کر پناہ مانگ رہے تھے۔‘‘ ہبہ نے کہا، ’’ہر گزرتا دن حالات کو مزید بدتر بنا رہا ہے۔‘‘ شمالی غزہ میں تین اور امداد کے متلاشی شہید ہوئے، جبکہ غزہ شہر میں دو افراد ایک اور حملے کا نشانہ بنے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے جنیوا میں اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اسرائیل نے خوراک کو ہتھیار بنا لیا ہے اور زندگی بچانے والی امداد کو روک رہا ہے۔ اس کے جنگی طریقے فلسطینیوں پر ناقابل برداشت اذیت مسلط کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے امدادی مراکز پر ہونے والے مہلک حملوں کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسرائیلی حکومتی عہدیداروں کی ’’غیر انسانی اور شرمناک بیان بازی سنگین جرائم کی یاد دلاتی ہے۔‘‘ امدادی مراکز یا ’’انسانی ذبح خانے‘‘: غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF)، جو امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ ہے، مئی کے آخر سے غزہ میں امداد کی محدود تقسیم شروع کی۔ یہ مراکز اسرائیلی فوج کے سخت کنٹرول میں ہیں اور ناقدین انہیں ’’انسانی ذبح خانے‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور بڑے امدادی اداروں نے GHF کے ساتھ تعاون سے انکار کیا ہے، کیونکہ یہ اسرائیلی فوجی مقاصد کو ترجیح دیتا ہے اور برسوں سے امداد فراہم کرنے والے تجربہ کار اداروں کو نظرانداز کرتا ہے۔ رفح اور نیتزریم راہداری میں حالیہ ہفتوں میں کئی مہلک واقعات کے بعد GHF کے امدادی مراکز کی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کر دی گئیں۔ الجزیرہ کے رپورٹر طارق ابو عزوم نے دہر البلاح سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا: ’’موجودہ امدادی نظام نے فلسطینیوں کے درمیان افراتفری اور مایوسی پھیلائی ہے۔ بھوک سے نڈھال فلسطینیوں کے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو گھروں میں رہ کر بھوک سے مر جائیں، یا آٹے کی ایک بوری کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالیں۔‘‘ غزہ کا انسانی المیہ: اسرائیل کی جانب سے گزشتہ 20 ماہ سے جاری حملوں میں غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق کم از کم 55,362 افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں بچے شامل ہیں۔ GHF کے امدادی مراکز کے قریب اب تک 300 سے زائد افراد شہید اور 2,000 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے تقریباً تین ماہ تک خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیا پر مکمل پابندی عائد کی، جس سے قحط کا خطرہ بڑھ گیا۔ اگرچہ مئی کے آخر میں جزوی طور پر امداد کی اجازت دی گئی، لیکن سخت پابندیوں کی وجہ سے صورتحال بدستور سنگین ہے۔ عالمی برادری کی تشویش: وولکر ترک نے کہا کہ اسرائیل کی پالیسیاں نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے۔ نتیجہ: غزہ کی سرزمین پر جاری اسرائیلی جارحیت نے انسانی المیے کو نئی گہرائیوں تک پہنچا دیا ہے۔ امدادی مراکز پر فائرنگ، بھوک سے نڈھال عوام کی چیخیں، اور خون سے لبریز گلیاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ غزہ کے عوام ناقابل بیان مصائب سے گزر رہے ہیں۔ عالمی برادری کی خاموشی اور امدادی نظام کی ناکامی نے فلسطینیوں کے لیے امید کی آخری کرن بھی ماند کر دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ خونریزی کب تک جاری رہے گی؟