
ہتھکڑیوں میں واپسی: 1703 بھارتیوں کی ملک بدری، پنجاب و ہریانہ سرفہرست
واقعے کی تفصیل: امریکہ نے 2025 کے ابتدائی سات ماہ (20 جنوری سے 22 جولائی) کے دوران 1703 بھارتی شہریوں کو ملک بدر کیا، جن میں 1562 مرد اور 141 خواتین شامل ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سب سے زیادہ ملک بدر کیے گئے افراد کا تعلق پنجاب سے ہے (620)، اس کے بعد ہریانہ (604)، گجرات (245)، اور جموں و کشمیر (10) ہیں۔ چھ افراد کے اصل صوبوں کی شناخت نہیں ہو سکی۔ یہ اعداد و شمار وفاقی وزیر مملکت برائے خارجہ امور کیرتی وردھن سنگھ نے جمعہ کو لوک سبھا میں پیش کیے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ پانچ سالوں (2020-2024) میں امریکہ سے 5541 بھارتیوں کو واپس بھیجا گیا، جبکہ برطانیہ سے اسی عرصے میں 311 اور 2025 میں اب تک 131 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔ ملک بدری کا عمل: ملک بدری کا عمل مختلف طریقوں سے انجام پایا۔ وزیر نے بتایا کہ فروری میں 333 بھارتیوں کو امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے فوجی جہازوں کے ذریعے واپس بھیجا گیا۔ مارچ میں 231 افراد کو یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کے چارٹرڈ جہازوں کے ذریعے ڈی پورٹ کیا گیا، جبکہ جولائی میں 300 افراد ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) کے چارٹرڈ جہازوں کے ذریعے واپس لائے گئے۔ اس کے علاوہ، 767 افراد کو امریکہ سے کمرشل پروازوں کے ذریعے اور 72 افراد کو پناما سے کمرشل پروازوں کے ذریعے انفرادی طور پر یا چھوٹے گروہوں میں واپس بھیجا گیا۔ یہ عمل نہ صرف تکنیکی طور پر پیچیدہ تھا بلکہ انسانی پہلوؤں سے بھی بھرپور تھا۔ بہت سے ڈی پورٹیز نے اپنی جمع پونجی اور قرضوں کے عوض غیر قانونی ایجنٹوں کے ذریعے ’’ڈنکی روٹ‘‘ کے نام سے مشہور خطرناک راستوں کا انتخاب کیا، جو لاطینی امریکہ سے گزرتا ہے اور اکثر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ ایک ایکس پوسٹ میں ایک متاثرہ شخص کی کہانی شیئر کی گئی: ’’امریکہ میں بہتر زندگی کا خواب دیکھ کر پنجاب سے نکلا تھا، لیکن ہتھکڑیوں اور زنجیروں میں واپس آیا۔ ایجنٹوں نے لاکھوں روپے لیے اور ہمیں موت کے منہ میں چھوڑ دیا۔‘‘ ریاستی تقسیم: ملک بدری کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب اور ہریانہ سے تعلق رکھنے والے افراد اس فہرست میں سرفہرست ہیں۔ پنجاب سے 620، ہریانہ سے 604، اور گجرات سے 245 افراد کو واپس بھیجا گیا۔ جموں و کشمیر سے 10 افراد شامل ہیں، جبکہ دیگر صوبوں جیسے اتر پردیش (38)، گوا (26)، مہاراشٹر (20)، دہلی (20)، تلنگانہ (19)، تمل ناڈو (17)، آندھرا پردیش (12)، اتراکھنڈ (12)، ہماچل پردیش (10)، کیرالہ (8)، چنڈی گڑھ (8)، مدھیہ پردیش (7)، راجستھان (7)، مغربی بنگال (6)، کرناٹک (5)، اڑیسہ (1)، بہار (1)، اور جھارکھنڈ (1) سے بھی افراد شامل ہیں۔ چھ افراد کی شناخت ’’نامعلوم‘‘ کے طور پر درج کی گئی۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق، 2001 سے 2022 تک امریکہ میں پناہ مانگنے والوں میں 66 فیصد پنجابی بولنے والے تھے، جبکہ 14 فیصد ہندی، 8 فیصد انگریزی، اور 7 فیصد گجراتی بولنے والے تھے۔ پنجاب اور ہریانہ سے پناہ گزینوں کی تعداد میں 2016 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا، جو غیر قانونی ہجرت کے بڑھتے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ انسانی حقوق اور سفارتی اقدامات: ڈی ایم کے رکن پارلیمان کنیموژی نے لوک سبھا میں سوال اٹھایا کہ کیا بھارتی حکومت نے ملک بدر کیے جانے والے شہریوں کے ساتھ انسانی سلوک اور بہتر ہم آہنگی کے لیے کوئی سفارتی اقدامات کیے ہیں۔ اس کے جواب میں وزیر کیرتی وردھن سنگھ نے کہا کہ بھارتی حکومت امریکی حکام سے مسلسل رابطے میں ہے۔ انہوں نے خاص طور پر خواتین اور بچوں پر ہتھکڑیوں اور زنجیروں کے استعمال پر سخت اعتراض اٹھایا اور مذہبی و ثقافتی حساسیتوں، جیسے کہ پگڑی اور غذائی ترجیحات کے تحفظ کے لیے امریکی حکام سے بات چیت کی۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ 5 فروری 2025 کے بعد سے کسی بھی پرواز میں ڈی پورٹیز کے ساتھ بدسلوکی کی کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔ وزیر نے مزید بتایا کہ بھارتی طلباء اور تارکین وطن کو ویزا سے متعلق چیلنجز کا سامنا ہے، جس کے لیے بھارتی وزارت خارجہ نے امریکی سفارتخانے اور محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا ہے۔ امریکی حکام نے ویزا تاخیر کی وجہ سخت سیکیورٹی تقاضوں کو قرار دیا، لیکن اب ویزا اپوائنٹمنٹس دوبارہ شروع ہو چکی ہیں۔ سماجی و سیاسی ردعمل: ملک بدری کے ان واقعات نے بھارت میں سیاسی بحث کو جنم دیا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے امریکی پروازوں کے امرتسر ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے پر سوال اٹھایا اور اسے پنجاب کی بدنامی کی سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا: ’’یہ پروازیں کیوں صرف امرتسر میں اتر رہی ہیں؟ کیا مرکزی حکومت پنجاب کو بدنام کرنا چاہتی ہے؟‘‘ کانگریس رہنما منیش تیواری اور شرومنی اکالی دل کے رہنما گلزار سنگھ رانیکے نے بھی اس عمل کو پنجاب کے خلاف سازش قرار دیا۔ دریں اثنا، شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے سکھ ڈی پورٹیز کی پگڑیوں کو ہٹانے پر سخت اعتراض کیا۔ غیر قانونی ہجرت کا پس منظر: پنجاب، ہریانہ، اور گجرات سے غیر قانونی ہجرت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق، پنجاب اور گجرات بھارت کے نسبتاً خوشحال صوبوں میں سے ہیں، جہاں سے تارکین وطن مہنگے ’’ڈنکی روٹ‘‘ کے ذریعے امریکہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ راستہ لاطینی امریکہ کے جنگلوں، سمندروں، اور سرحدوں سے گزرتا ہے، جس میں 40 سے 60 لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے۔ کئی تارکین وطن قرضوں یا زمین بیچ کر یہ سفر طے کرتے ہیں، لیکن ناکامی کی صورت میں انہیں ہتھکڑیوں اور ذلت کے ساتھ واپس لوٹنا پڑتا ہے۔ ایک ایکس صارف نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’پنجاب کے نوجوان بہتر زندگی کے خواب میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں، لیکن ایجنٹ انہیں دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ ایک قومی المیہ ہے۔‘‘ ماخذ: آجتک : نیو انڈین ایکسپریس: دی ہندو: ٹریبیون انڈیا: سیاسات ڈاٹ کام: بزنس اسٹینڈرڈ: ایکس پوسٹس: