وَ لَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا وَ كَانُوا يَتَّقُونَ (۵۷)(سورۃ یوسف)
اور آخرت کا جو اجر ہے، وہ اُن لوگوں کے لئے کہیں زیادہ بہتر ہے جو ایمان لاتے اور تقویٰ پر کار بند رہتے ہیں(۵۷)(آسان ترجمۃ القران)
وعن ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلاً لَعَنَ الرِّيحَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تَلْعَنُوا الرِّيحَ فَإِنَّهَا مَاْمُورَةٌ وَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئاً لَيْسَ لَهُ بِأَهْلِ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک شخص ہوا پر لعنت کر رہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہوا پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ تو ( رحمت یا عذاب کے لئے ) خدا کی جانب سے مامور ہے اور جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت کرتا ہے جو لعنت کا مستحق نہیں ہوتی تو وہ لعنت اسی لعنت کرنے والے پر لوٹ آتی ہے۔ (توضیحات شرح مشکوۃ ج۳ ص۲۱۰)
ایک مرتبہ ملا نصیر الدین کا ایک فقیر نے گھر دیکھ لیا۔ اب وہ روز آتا اور کھانے پینے کے سامان کے ساتھ کچھ پیسے بھی مانگ کر لے جاتا ۔ ملا نصیر الدین اس سے عاجز آگئے تھے اور اس سے پیچھا چھڑانے کی کوئی ترکیب سوچ رہے تھے۔ ایک دن ملا نصیر الدین کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے کہ وہی فقیر نازل ہو گیا۔ ملا نصیر الدین نے جھڑک کر دریافت کیا۔ ”آخر تو ہے کون؟ جو روز نازل ہو جاتا ہے؟“ فقیر نے سادگی سے جواب دیا۔ خدا کا مہمان ! ملا نصیر الدین فوراً باہر نکلے۔ فقیر کا ہاتھ پکڑا اور شہر کی جامع مسجد لے گئے ۔ مسجد کے اندر پہنچا کر کہا۔ اب تک تو سخت دھو کے میں تھا۔ وہ گھر جہاں تو ہر روز پہنچتا تھا میرا گھر ہے لیکن جب تو نے بتایا کہ تو خدا کا مہمان ہے تو میں نے اس میں بے حرمتی محسوس کی کہ خدا کے مہمان کو خدا کے گھر سے لاعلم رکھوں ۔“ اس کے بعد واپس آتے ہوئے کہا۔ ”خبردار ! جو تو نے میرے گھر کا رخ کیا۔ خدا کے مہمان ! خدا کے گھر کو اچھی طرح پہچان لے اور ادھر ادھر مت بھٹکتا پھر ۔
جو لوگ کھیل میں شریک نہیں ہیں لیکن کسی فریق یا فرد کے جیتنے پر آپس میں پیسوں کی بازی لگائیں ، تو یہ بھی قمار میں داخل ہے اور حرام ہے ۔(اہم مسائل / ج: ۴/ص: ۲۰۰)