آیۃ القران

وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۶۴)(سورۃ العنکبوت)

اور یہ دنیوی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ بھی نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔(۶۴)(آسان ترجمۃ القران) یعنی جس طرح کھیل کود میں کچھ دیر تو مزہ آتا ہے، مگر وہ کوئی پائیدار چیز نہیں ہے، ذرا دیر گذرنے کے بعد سارا تماشا ختم ہوجاتا ہے، اسی طرح دنیا کی لذتیں بھی ناپائیدار ہیں، اور کچھ ہی عرصے میں سب ختم ہوجائیں گی۔ اس کے برخلاف آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہے، اس لیے اس کی لذتیں اور نعمتیں سدا بہار ہیں۔ اس لیے اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے۔(آسان ترجمۃ القران)

خطباتِ سلف جلد 5

حدیث الرسول ﷺ

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ دُعِيَ فَلَمْ يُجِبْ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن دَخَل٘ عَلى غَيْرِ دَعْوَةٍ دَخَلَ سَارِقًا وَخَرَجَ مُغِيرًا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد(مشکوۃ المصابیح:۳۲۲۲)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ جس شخص کی دعوت کی جائے اور وہ قبول نہ کرے تو اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ، اور جو شخص بن بلائے دعوت میں شریک ہوا تو وہ چور کی شکل میں داخل ہوا اور ڈاکو کی صورت میں باہر نکلا ۔ (ابوداؤد)(الرفيق الفصیح/ج:۱۶/ص:۳۷۲)

Download Videos

الا بذکر اللہ تطمئن القلوب

کنوارے شادی کے خیالوں میں ہیں، شادی شدہ طلاق کے چکر میں۔۔۔ بچوں کو بڑے ہونے کی جلدی ہے، بڑوں کو بچپن دوبارہ لوٹنے کی آرزو ۔۔۔ نوکری کرنے والے اپنے کام کی سختیوں سے نالاں ہیں ، بےروزگاروں کے لبوں پر کام ملنے کی دعائیں ۔۔۔ غریبوں کو امیروں کی زندگی کی حسرت ہے ، امیروں کو ایک لمحہ آرام کی تمنا ۔۔۔ مشہور شخصیات چھپنے کے ٹھکانوں کی تلاش میں ہیں ، عام لوگ مشہور ہونے کے خواہش مند۔ عجیب دنیا کے باسی ہیں ہم ۔۔۔ ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ خوشحالی کا واحد فارمولا یہ ہے کہ جو نعمتیں رب کی طرف سے ہمیں ملی ہیں ہم بس ان کی قدر کریں

Naats

اہم مسئلہ

بلاضرورت مسجد میں کھانا پینا اور سونا مکروہ ہے، البتہ مسافر اور معتکف کیلئے مسجد میں کھانے، پینے اور سونے کی گنجائش ہے، اسی طرح کسی شخص کو ایسی دینی ضرورت لاحق ہو ، جو مسجد میں سوئے بغیر حاصل نہ ہوسکتی ہو، مثلاً نماز با جماعت کی پابندی نصیب ہوتی ہو، یا تہجد کی توفیق ہوتی ہو، یا مسجد کی حفاظت مقصود ہو، تو اس کیلئے بھی مسجد میں سونے کی اجازت و گنجائش ہے، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین بھی دینی ضرورت کیلئے مسجد میں سوتے تھے۔(اہم مسائل/ج:۳/ص:۲۴۶)