آیۃ القران

قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ (۵۰)(سورہ طہ)

موسٰی نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو وہ بناوٹ عطا کی جو اس کے مناسب تھی پھر (اس کی)رہنمائی بھی فرمائی(آسان ترجمۃ القران)

سوال و جواب کتاب و سنت کی روشنی میں

حدیث الرسول ﷺ

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قِيلَ ، يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ ؟ قَالَ : يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ فيَسُبُّ أُمَّه (کتاب: بُخاری شریف کتاب الادب حدیث نمبر: ۵۹۷۳)

نبی ﷺ نے فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے یہ بات ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجے، صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ ! کوئی اپنے ماں باپ پر لعنت کیسے بھیج سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دے پس وہ اس کے باپ کو گالی دے، اور دوسرے کی ماں کو گالی دے پس وہ اس کی ماں کو گالی دے ( اس طرح آدمی سبب بن کر اپنے والدین کو گالیاں دلواتا ہے، پس گویا اس نے خود اپنے والدین کو گالیاں دیں )(کتاب: تحفۃ القاری؛ ج : ۱۱؛ ص:۵۰)

Download Videos

اغلاط العوام

نمبر (۱) صبح کا ناشتا دستیاب ہے۔ تفصیل: ناشتا صبح ہی کو کیا جاتا ہے۔ رات کا ناشتا یا دوپہر کا ناشتا کوئی چیز نہیں، سو صرف درست یہی ہے کہ "ناشتا دستیاب ہے" نمبر (۲) جھوٹے الزامات تفصیل: کبھی آپ نے سچے الزامات سنے؟؟ نہیں؟؟ تو درست بھی "الزامات" ہی ہے. ناکہ جھوٹے الزامات۔ ضرب المثال: نمبر (۱) آدمی آدمی پر گرتا ہے۔ مطلب: بہت زیادہ بھیڑ، رش، ہجوم استعمال: اندرون شہر کا تو پوچھیے ہی مت جہاں آدمی آدمی پر گرتا ہے۔ ایسی جگہوں سے دل گھبراتا ہے. وغیرہ نمبر (۲) پیٹ سے پاؤں نکالنے لگے ہیں۔ مطلب: غلط یا نالائق حرکات کرنا۔ استعمال: اُدھر میاں ظہور کے بیٹے کو دیکھیے قد ابھی نکلا نہیں، پیٹ سے پاؤں نکالنے لگے ہیں۔ وغیرہ ذخیرہ الفاظ: نمبر (۱) تَجَاہلِ عَارِفَانہ معنی: جان بوجھ کر لاعلم بننا۔ استعمال: نفیسی صاحب بڑے جی دار آدمی ہیں۔ جہاں دیدہ ہیں مگر اپنے بیٹے کی بات پر تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ نمبر (۲) رَفِیعُ الْمَرتَبَت معنی: اونچے مرتبے والا، اونچی شان والا۔ استعمال: اپنے،علم، عمل اور عاجزی کی وجہ سے صوفی صاحب ایک رفیع المرتبت شخصیت ہیں۔

Naats

اہم مسئلہ

جن فرض نمازوں کے بعد سنت نہیں ہے، اس میں اگر امام تسبیح کے لئے بیٹھے تو دائیں طرف منہ کر کے یا بائیں طرف منہ کر کے یا عین مقتدی کی طرف کر کے تینوں طرح بیٹھنے کا اختیار ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تینوں طریقے مروی ہیں ؛ البتہ دائیں طرف منہ کر کے بیٹھنا افضل اور اولی ہے۔(کتاب النوازل/ ج:۴/ص:۸۰)