إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (سورۃ الاسراء)
یقین جانو کہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اُڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا نا شکرا ہے۔ (آسان ترجمۃ القران)
أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ إِنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ " لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ "(بُخاری شریف ۵۹۸۴)
نبیﷺ نے فرمایا : " قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا! یعنی رشتہ داروں کے ساتھ برا سلوک کرنا نہایت سنگین گناہ ہے، کوئی شخص اس گناہ کی گندگی کے ساتھ جنت میں نہیں جاسکے گا، ہاں سزا پا کر یا معافی مل جائے تو دوسری بات ہے۔(تحفۃ القاری)
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ غیبت سے چنے کا آسان راستہ یہ ہے کہ دوسرے کا ذکر کرو ہی نہیں نہ اچھائی سے ذکر کرو اور نہ برائی سے ذکر کرو کیونکہ یہ شیطان بڑا خبیث ہے۔ اس لئے کہ جب تم کسی کا ذکر اچھائی سے کرو گے کہ فلاں شخص بڑا اچھا آدمی ہے۔ اس کے اندر یہ اچھائی ہے تو دماغ میں یہ بات رہے گی کہ میں اس کی غیبت تو نہیں کر رہا بلکہ اچھائی سے اس کا ذکر کر رہا ہوں لیکن پھر یہ ہو گا کہ اس کی اچھائیاں بیان کرتے کرتے شیطان کوئی جملہ در میان میں ایسا ڈال دے گا جس سے وہ اچھائی برائی میں تبدیل ہو جائے گی مثلاً وہ کہے گا کہ فلاں شخص ہے تو بڑا اچھا آدمی .. مگر اس کے اندر فلاں خرابی ہے یہ لفظ ”مگر “ آکر سارا کام خراب کر دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ گفتگو کا رخ غیبت کی طرف منتقل ہو جائے گا اس لئے حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ دوسروں کا ذکر کرو ہی نہیں۔ نہ اچھائی سے نہ برائی سے اور اگر کسی کا ذکر اچھائی سے کر رہے ہو تو ذرا کمر کس کے بیٹھو تاکہ شیطان غلط راستے پر نہ ڈال دے۔
حدود مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ہو جانے کے بعد ، بہتر یہی ہے کہ تنہا تنہا نماز پڑھ لیں (دوبارہ باجماعت نماز ادا نہ کریں)، یہی ظاہر روایت ہے، اگر اذان واقامت کے ساتھ جماعت کر کے پڑھیں تو مکروہ تحریمی ہے، اور بلا اذان واقامت جماعت کے ساتھ پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔ (المبسوط :۲۳۵/۱)(کتاب :درسی و تعلیمی اہم مسائل/ص:٩٧)