قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خِلٰلٌ(۳۱)(سورۃ ابراھیم)
میرے جو بندے ایمان لائے ہیں، ان سے کہہ دو کہ وہ نماز قائم کریں، اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں سے پوشیدہ طور پر بھی اور علانیہ بھی (نیکی کے کاموں میں) خرچ کریں (اور یہ کام) اس دن کے آنے سے پہلے پہلے (کرلیں) جس میں نہ کوئی خریدو فروخت ہوگی، نہ کوئی دوستی آئے گی۔(۳۱)(آسان ترجمۃ القران) یعنی: اس سے مراد حساب و کتاب کا دن ہے۔ اس دن کوئی شخص پیسے خرچ کر کے جنت نہیں خرید سکے گا اور نہ دوستی کے تعلقات کی بنا پر اپنے آپ کو عذاب سے بچا سکے گا۔(آسان ترجمۃ القران)
أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، حَدَّثَتْهُ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَتْرُكُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا فِيهِ تَصَالِيبُ إِلَّا نَقَضَهُ(بُخاری شریف:۵۹۵۲)
عمران بن حطان سے روایت ہے کہ ان سے حضرت عائشہ نے حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں جب بھی کوئی چیز ایسی ملتی جس میں تصویریں ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے توڑ دیتے تھے۔(نصر الباری)
آج مغربی علوم جو در حقیقت خالص جاہلیت ہیں ،جدید پیراۓ میں اسلامی معاشرے میں داخل ہوکر ہمارے عقائد ونظریات اور معاشرت کو منہدم کررہے ہیں ۔۔۔نسل نو اس فکری یلغار کی کی وجہ سے اپنے دین کے بارے میں تشکیک کا شکار ہورہی ہے اور وہ بر سر عام دینی اقدار وروایات کو فرسودہ و ناقابل عمل قرار دے رہی ہے ،مغرب کا علمی تفوق بدستور ہماری تعلیم یافتہ نسلوں کو اپنی فسوں کاری میں نگل رہا ہے ۔۔۔۔آج کے دور میں انسانی حقوق ،آزادیے رائے ،آزادیے اظہار، آزادئ نسواں ،لبرل ازم ،سیکولر ازم اور ماڈرن ازم جیسے مغربی افکار ہی مقدس ٹہراۓ جارہے ہیں ،جو در حقیقت انکار خدا ورسول انکار وحی اور انسان کی الوہیت پر مبنی ہیں ۔۔۔۔۔لھذا ضروری ہے کہ مغربی افکار وعلوم کا مطالعہ کرکے قرآن وحدیث ،فقہ وکلام کی روشنی میں ان کا محاکمہ کیا جاۓ ۔۔۔۔۔اللہ ہمارے ایمان وعمل کی حفاظت فرماۓ۔۔۔۔۔۔
نماز میں آستین اتارنا اگر کوئی شخص رکعت کے فوت ہونے کے ڈر سے جلدی جلدی جماعت میں شامل ہو گیا ، اور آستینیں اوپر چڑھی رہ گئیں ، تو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ اپنی آستینیں کچھ قیام میں ، کچھ رکوع میں ، کچھ قومہ میں، کچھ سجدہ میں اور کچھ جلسہ میں عمل قلیل سے اُتارے، ایسی صورت اختیار نہ کرے کہ عملِ کثیر ہو جائے اور نماز فاسد ہو۔(اہم مسائل/ج:۱/ص:۵۶)