علم کا مقام اور اہل علم کی ذمہ داریاں

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى ، قَالَتْ : فَقُلْتُ : مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : أَمَّا إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً ، فَإِنَّكِ تَقُولِينَ : لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ ، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى ، قُلْتِ : لَا وَ رَبِّ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَتْ : قُلْتُ : أَجَلْ ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ(بُخاری شریف:۵۲۲۸)

صدیقہؓ کہتی ہیں: مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” میں سمجھ جاتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو، صدیقہ نے پوچھا: آپ یہ بات کس طرح پہچانتے ہیں؟ ( کیونکہ خوشی نا خوشی دل کی کیفیات ہیں، ان کو پہچاننے کے لئے قرائن چاہئیں) آپ نے فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ، رب محمد کی قسم ! اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ، رب ابراہیم کی قسم ! صدیقہ نے کہا: کیوں نہیں یعنی آپ کی یہ بات صحیح ہے نہیں چھوڑتی میں مگر آپ کے نام کو یعنی محبت اس وقت بھی دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔(تحفۃ القاری)

آیۃ القران

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵)(سورۃ المائدہ)

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی۔ (۳۵)(آسان ترجمۃ القران) وسیلہ سے یہاں مراد ہر وہ نیک عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ (آسان ترجمۃ القران) جہاد کے لفظی معنی کوشش اور محنت کرنے کے ہیں، قرآنی اصطلاح میں اس کے معنی عام طور سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے دشمنوں سے لڑنے کے آتے ہیں ؛ لیکن بعض مرتبہ دین پر عمل کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کو بھی جہاد کہا جاتا ہے، یہاں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

یومِ اقبال

‎بسم اللہ الرحمن الرحیم ۹ نومبر ' یومِ اقبال یعنی اقبال کی پیدائش کا دن آداب سحر خیزی انگلستان کا برفیلا علاقہ ' زمستانی ہوائیں 'ہر طرف عیسائیت کا غلغلہ' ایمانی چرچوں کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں' حالات بالکل مخالف اور ناموافق' شب تاریک کا بے چین کر دینے والا سکوت اور ایک بندۂ مومن اپنے نرم وگرم بستر سے اٹھتا ہے'جسم و روح کو کپکپا دینے والے ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہے'مصلی بچھاتا ہے اور دو گانہ ادا کرتا ہے' عجز کا دامن پھیلا کر رب کی کبریائی بیان کرتا ہے ' راز و نیاز کرتا ہے' سردی کے ماحول میں اس کے گرم گرم آنسو رب کے حضور بہکر بندۂ مومن کے رخسار پر لکیریں بنا لیتے ہیں' کبھی ہچکیاں بندھ جاتی ہے تو کبھی آواز لڑکھڑا جاتی ہے اور ایسا روزانہ ہوتا ہے اور جب بندۂ مومن اپنے قلم پر قابو پاتا ہے تو ان سردی کی راتوں کا راز یوں فاش ہوتا ہے ہے کہ: گر چہ زمستانی ہوا میں تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے جس سے لندن میں بھی آدابِ سحرخیزی اقبال ایسے ہی اقبال نہیں بنے ۔کئی بار ملت کا درد ان سرد راتوں میں آنسوؤں کی شکل بنا کر آنکھوں کے چشموں سے سے جاری ہوا ہوگا اور اور ان ساکت و صامت راتوں میں کتنی مرتبہ امت کی بد حالی اور تنزلی کے شکوے اپنے رب کے پاک دربار میں سنائے ہوں گے۔تب جا کر کے اقبال کو شعر و سخن اور اس میں درد و گداز اور سوز وساز کا وہ تحفہ ملا ہوگا جسے سننے والا مسحور اور اور پڑھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ہے سچ ہے اقبال نے ہی تو کہا تھا: عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی 🖋🖋انس نرولوی🖋🖋

Naats

اہم مسئلہ

بعض لوگ سلام ومصافحہ کے بعد اپنے ہاتھوں کو اپنے سینہ پر پھیرتے ہیں، جبکہ مصافحہ کے بعد سینہ پر ہاتھ پھیرنا نہ کسی حدیث میں مذکور ہے، اور نہ ہی فقہائے کرام نے کتب فقہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے، یہ محض ایک رواج ہے، اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔(اہم مسائل/ج:۳/ص:۲۹۱)