آیۃ القران

اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (۸۲)(سورۃ یٰس)

اُس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرلے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ : ”ہوجا“ بس وہ ہو جاتی ہے۔ (۸۲)(آسان ترجمۃ القران)

فتاوی رحیمیہ جلد 02

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ مَا عَلَى الأَرْضِ أَحَدٌ يَقُولُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ ‏.‏ إِلاَّ كُفِّرَتْ عَنْهُ خَطَايَاهُ وَلَوْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ ‏"‏(ترمذی شریف/ باب : ابواب الدعوات)

نبی ﷺ نے فرمایا : زمین میں کوئی نہیں جو کہے: لا إله إلا الله: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں! والله اکبر: اور اللہ سب سے بڑے ہیں ! ولا حول ولا قوة إلا بالله اور کچھ طاقت اور قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے مگر اس سے اس کی خطائیں مٹادی جاتی ہیں ، اگر چہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں“(تحفۃ الالمعی/ج:۸)

Download Videos

اغلاط العوام

نمبر (۱) صبح کا ناشتا دستیاب ہے۔ تفصیل: ناشتا صبح ہی کو کیا جاتا ہے۔ رات کا ناشتا یا دوپہر کا ناشتا کوئی چیز نہیں، سو صرف درست یہی ہے کہ "ناشتا دستیاب ہے" نمبر (۲) جھوٹے الزامات تفصیل: کبھی آپ نے سچے الزامات سنے؟؟ نہیں؟؟ تو درست بھی "الزامات" ہی ہے. ناکہ جھوٹے الزامات۔ ضرب المثال: نمبر (۱) آدمی آدمی پر گرتا ہے۔ مطلب: بہت زیادہ بھیڑ، رش، ہجوم استعمال: اندرون شہر کا تو پوچھیے ہی مت جہاں آدمی آدمی پر گرتا ہے۔ ایسی جگہوں سے دل گھبراتا ہے. وغیرہ نمبر (۲) پیٹ سے پاؤں نکالنے لگے ہیں۔ مطلب: غلط یا نالائق حرکات کرنا۔ استعمال: اُدھر میاں ظہور کے بیٹے کو دیکھیے قد ابھی نکلا نہیں، پیٹ سے پاؤں نکالنے لگے ہیں۔ وغیرہ ذخیرہ الفاظ: نمبر (۱) تَجَاہلِ عَارِفَانہ معنی: جان بوجھ کر لاعلم بننا۔ استعمال: نفیسی صاحب بڑے جی دار آدمی ہیں۔ جہاں دیدہ ہیں مگر اپنے بیٹے کی بات پر تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ نمبر (۲) رَفِیعُ الْمَرتَبَت معنی: اونچے مرتبے والا، اونچی شان والا۔ استعمال: اپنے،علم، عمل اور عاجزی کی وجہ سے صوفی صاحب ایک رفیع المرتبت شخصیت ہیں۔

Naats

اہم مسئلہ

اگر کسی شخص کو دوران نماز کسی رکن کے ادا کرنے یا ادا نہ کرنے میں شک ہو، اور وہ ایک رکن ادا کرنے یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ پڑھنے کے بقدر سوچتا ہی رہے، نہ قرآت میں مشغول ہو اور نہ ذکر و تسبیح میں، تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا ، اور اگر سوچنے کے دوران نماز بھی پڑھتا رہا تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔(کتاب : اہم مسائل/ ص : ۷۲)