لَا أُقْسِمُ بِهَٰذَا الْبَلَدِ (۱) وَأَنتَ حِلٌّ بِهَٰذَا الْبَلَدِ (۲) وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ (۳) لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ (۴)(سورۃ البلد)
میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی (۱) جبکہ(اے پیغمبر!) تم اس شہر میں مقیم ہوں(۲) اور(قسم کھاتا ہوں) باپ کی اور اُس کی اولاد کی(۳) کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے(۴)(یہ وہ بات ہے جو قسم کھاکر فرمائی گئی ہے مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگا رہتا ہے ۔ چاہے کوئی کتنا بڑا حاکم ہو، یا دولت مند شخص ہو، اُسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اٹھانی ہی پڑتی ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اُسے دُنیا میں کبھی کوئی محنت کرنی نہ پڑے تو یہ اُس کی خام خیالی ہے ۔ ایسا کبھی ممکن ہی نہیں ہے۔ آسان ترجمۃ القران)
حَدَّثَنَا أَنَسٌؓ قَالَ خَدَمْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ. وَلاَ لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلاَ أَلاَّ صَنَعْتَ؟(بُخاری شریف ۶۰۳۸)
حضرت انسؓ کہتے ہیں: میں نے دس سال نبی صلی ﷺ کی خدمت کی ، پس کبھی آپ نے مجھ سے اوں نہیں کہا، اور کبھی ایسے کام کے لئے جو میں نے کیا : تونے یہ کام کیوں کیا ؟ نہیں کہا، اور کبھی میں نے کوئی کام نہیں کیا تو ”تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا ؟“ نہیں کہا (تحفۃ القاری)
آج مغربی علوم جو در حقیقت خالص جاہلیت ہیں ،جدید پیراۓ میں اسلامی معاشرے میں داخل ہوکر ہمارے عقائد ونظریات اور معاشرت کو منہدم کررہے ہیں ۔۔۔نسل نو اس فکری یلغار کی کی وجہ سے اپنے دین کے بارے میں تشکیک کا شکار ہورہی ہے اور وہ بر سر عام دینی اقدار وروایات کو فرسودہ و ناقابل عمل قرار دے رہی ہے ،مغرب کا علمی تفوق بدستور ہماری تعلیم یافتہ نسلوں کو اپنی فسوں کاری میں نگل رہا ہے ۔۔۔۔آج کے دور میں انسانی حقوق ،آزادیے رائے ،آزادیے اظہار، آزادئ نسواں ،لبرل ازم ،سیکولر ازم اور ماڈرن ازم جیسے مغربی افکار ہی مقدس ٹہراۓ جارہے ہیں ،جو در حقیقت انکار خدا ورسول انکار وحی اور انسان کی الوہیت پر مبنی ہیں ۔۔۔۔۔لھذا ضروری ہے کہ مغربی افکار وعلوم کا مطالعہ کرکے قرآن وحدیث ،فقہ وکلام کی روشنی میں ان کا محاکمہ کیا جاۓ ۔۔۔۔۔اللہ ہمارے ایمان وعمل کی حفاظت فرماۓ۔۔۔۔۔۔
بعض عورتیں باوضو ہونے کی حالت میں اپنے چھوٹے بچے کا پیشاب پاخانہ دھلانے پر یہ خیال کرتی ہیں کہ ان کے اس عمل سے خود ان کا وضو بھی ٹوٹ گیا، جبکہ یہ خیال صحیح نہیں ہے، کیوں کہ وضو کے ٹوٹنے کیلئے نواقض وضو میں سے کسی ناقض کا پایا جانا ضروری ہے، اور وہ یہاں نہیں پایا گیا ، اس لئے ان کا وضو بھی نہیں ٹوٹا۔(اہم مسائل/ج:۳/ص:۵۷)