ماہنامہ دار التقویٰ لاہور (دسمبر)

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ ، وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ ، وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا(بُخاری شریف: ۸۰)

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ ( دینی ) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا ۔ اور ( علانیہ ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا ۔

آیۃ القران

اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۴)(سورۃ ھود)

اللہ ہی کے پاس تمہیں لوٹ کر جانا ہے، اور وہ ہر چیز کی پوری قدرت رکھتا ہے۔(۴)(آسان ترجمۃ القران)

Download Videos

قانون توڑنا جائز نہیں

آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱؁ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،

Naats

اہم مسئلہ

آخری دیدار کے لیے نماز جنازہ کے بعد میت کا منہ دیکھنا - اصل بات تو یہ ہے کہ چہرہ دیکھنا کوئی شرعی حکم نہیں ہے کہ اس کے لئے باقاعدہ اہتمام کیا جائے؛ تاہم اگر کوئی چہرہ دیکھنا چاہے تو نماز جنازہ سے قبل دکھانے کی اجازت ہے، نماز کے بعد نہ دکھایا جائے ؛ کیوں کہ اس میں دفن میں تا خیر لا زم آتی ہے، اور جہاں یہ رونمائی باقاعدہ رسم کی صورت اختیار کرلے وہاں اس پر روک ٹوک کرنی چاہئے۔(کتاب النوازل/ج:۶/ص:۵۹)