عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ (ابو داؤد شریف/کتاب:کتاب الادب/ باب: فی حسن الخلق )
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا مومن اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے اُس شخص جیسا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے جو کہ تمام دن روزہ رکھے اور رات کو عبادت کرے۔(سنن ابو داؤد مترجم/ج:۳)
Fans
Fans
Fans
Fans
admin | 12 April, 2024
admin | 12 April, 2024
admin | 30 March, 2024
admin | 30 March, 2024
ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ (۱۶)(سورۃ المومنون)
پھر قیامت کے دن تمہیں یقینا دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ (۱۶)(آسان ترجمۃ القران)
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ غیبت سے چنے کا آسان راستہ یہ ہے کہ دوسرے کا ذکر کرو ہی نہیں نہ اچھائی سے ذکر کرو اور نہ برائی سے ذکر کرو کیونکہ یہ شیطان بڑا خبیث ہے۔ اس لئے کہ جب تم کسی کا ذکر اچھائی سے کرو گے کہ فلاں شخص بڑا اچھا آدمی ہے۔ اس کے اندر یہ اچھائی ہے تو دماغ میں یہ بات رہے گی کہ میں اس کی غیبت تو نہیں کر رہا بلکہ اچھائی سے اس کا ذکر کر رہا ہوں لیکن پھر یہ ہو گا کہ اس کی اچھائیاں بیان کرتے کرتے شیطان کوئی جملہ در میان میں ایسا ڈال دے گا جس سے وہ اچھائی برائی میں تبدیل ہو جائے گی مثلاً وہ کہے گا کہ فلاں شخص ہے تو بڑا اچھا آدمی .. مگر اس کے اندر فلاں خرابی ہے یہ لفظ ”مگر “ آکر سارا کام خراب کر دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ گفتگو کا رخ غیبت کی طرف منتقل ہو جائے گا اس لئے حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ دوسروں کا ذکر کرو ہی نہیں۔ نہ اچھائی سے نہ برائی سے اور اگر کسی کا ذکر اچھائی سے کر رہے ہو تو ذرا کمر کس کے بیٹھو تاکہ شیطان غلط راستے پر نہ ڈال دے۔
تکبیرات انتقال کا مسنون وقت یہ ہے کہ جہاں سے انتقال شروع ہو، وہیں سے تکبیر بھی شروع ہو، اور جہاں انتقال ختم ہو وہیں تکبیر بھی ختم ہو ، اگر کسی رکن میں پہنچنے کے بعد بھی تکبیر انتقالی ختم نہ ہوئی، تو یہ عمل خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مکر وہ ہوگا۔ (اہم مسائل/ج:۱/ص:۴۶)