آیۃ القران

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۲۹)(سورۃ النساء)

اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔(۲۹)(سورۃ النساء) یعنی: اس کا سادہ مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح دوسرے کا مال ناحق طریقے سے کھانا حرام ہے کسی کی جان لینا اس سے زیادہ حرام ہے، دوسرے کی جان لینے کو اپنے آپ کو قتل کرنے سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ دوسرے کو قتل کرنا بالآخر اپنے آپ ہی کو قتل کرنا ہے ؛ کیونکہ اس کے بدلے میں خود قاتل قتل ہوسکتا ہے، اور اگر یہاں قتل نہ بھی ہو تو آخرت میں اس کی جو سزا ملنی ہے وہ موت سے بھی بدتر ہوگی، اس طرح اس تعبیر سے خود کشی کی ممانعت بھی واضح ہوگئی، دوسرے کسی کا مال ناحق کھانے کے ساتھ یہ جملہ لانے سے اس طرف بھی اشارہ ممکن ہے کہ جب ناحق مال کھانے کا رواج معاشرے میں عام ہوجائے تو اس کا نتیجہ اجتماعی خود کشی کی صورت میں نکلتا ہے۔(آسان ترجمۃ القران)

وقت کی قدر اور علم سے پیار

حدیث الرسول ﷺ

سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنْ الدَّجَّالِ حَدِيثًا مَا حَدَّثَهُ نَبِيٌّ قَوْمَهُ إِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّهُ يَجِيءُ مَعَهُ مِثْلُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَالَّتِي يَقُولُ إِنَّهَا الْجَنَّةُ هِيَ النَّارُ وَإِنِّي أَنْذَرْتُكُمْ بِهِ كَمَا أَنْذَرَ بِهِ نُوحٌ قَوْمَهُ(مسلم شریف:۲۹۳۶)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں دجال کے بارے میں ایسی خبر نہ دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں دی۔ بے شک وہ کانا ہو گا اور وہ جنت اور دوزخ کی مثل لے کر آئے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا وہ جہنم ہو گی اور میں تمہیں اس سے اسی طرح ڈراتا ہوں جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اس سے اپنی قوم کو ڈرایا۔(تفہیم المسلم)

Download Videos

​​حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا ایک قبر سے مکالمہ

ایک مرتبہ آپ اپنے ایک عزیز کے جنازے کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے ـ قبرستان میں پہنچ کر آپ الگ تھلگ ایک جگہ پر جا کر بیٹھ گئے اور کچھ سوچنے لگے، کسی نے عرض کیا : اے امیر المومنین! آپ تو اس جنازے کے ولی تھے اور آپ ہی علیحدہ بیٹھ گئے؟ فرمایا : ہاں! مجھے ایک قبر نے آواز دے کر کہا : اے عمر بن عبدالعزیز! تو مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ میں ان آنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں؟ میں نے کہا: ضرور بتا ۔ اس نے کہا : جب یہ میرے اندر آتے ہیں تو میں ان کے کفن پھاڑ دیتی ہوں ، میں ان کے بدن کے ٹکڑے کر دیتی ہوں ، سارا خون چوس لیتی ہوں، گوشت کھا لیتی ہوں اور بتاؤ کہ آدمی کے جوڑوں کے ساتھ کیا کرتی ہوں ؟ کندھوں کو بازؤوں سے جدا کر دیتی ہوں ، بازؤوں کو کلائیوں سے جدا کر دیتی ہوں اور سرینوں کو بدن سے جداد کر دیتی ہوں اور سرینوں سے رانوں کو جدا کردیتی ہوں اور رانوں کو گھٹنوں سے اور گھٹنوں کو پنڈلیوں سے اور پنڈلیوں کو پاؤں سے جدا کردیتی ہوں ـ یہ فرماکر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ رونے لگے اور فرمایا: دنیا کا قیام بہت ہی تھوڑا ہے اور اس کا دھوکہ بہت زیادہ ہے ـ اس میں جو عزیز ہے وہ آخرت میں ذلیل ہے،اس میں جو دولت والا ہے وہ آخرت میں فقیر ہے، اس کا جوان بہت جلد بوڑھا ہوجائے گا ـ(الـعـاقبۃ فی ذکر الموت ـ الاشبلی ص ا۹۱)

Naats

اہم مسئلہ

تکبیر تحریمہ کے بعد ارسال( ہاتھ چھوڑنا پھر باندھنا) کیسا ہے؟ بعض لوگ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو چھوڑ دیتے ہیں پھر باندھتے ہیں جبکہ افضل یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد ہاتھ چھوڑے بغیر باندھ لیں اور یہی قول مفتی بہ ہے۔