ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ (۱۶)(سورۃ المومنون)
پھر قیامت کے دن تمہیں یقینا دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ (۱۶)(آسان ترجمۃ القران)
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ (ابو داؤد شریف/کتاب:کتاب الادب/ باب: فی حسن الخلق )
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا مومن اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے اُس شخص جیسا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے جو کہ تمام دن روزہ رکھے اور رات کو عبادت کرے۔(سنن ابو داؤد مترجم/ج:۳)
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے ایک خلیفہ نے آپ کو خط لکھتے ہوئے اپنے اصلاحی اور ملی کارنامے شمار کرائے، کہ آج کل میں وعظ بھی کہہ رہا ہوں، درس وتدریس بھی کر رہا ہوں، تصنیف وتالیف بھی جاری ہے......... وغیرہ وغیرہ. حضرت نے جواب میں عجیب بات فرمائی، جو ہم سب کے لیے حد درجہ قابلِ توجہ ہے. فرمایا کہ: میاں! یہ سب تو تم دوسروں کا کام کر رہے ہو؟ اور اس طرح کی خدمات تو اللہ تعالیٰ "رجلِ فاجر" سے بھی لے لیتے ہیں. تم تو یہ بتاؤ کہ تمھارے ذاتی اعمال اور احوال کیسے چل رہے ہیں؟ تزکیۂ قلب اور اصلاحِ نفس کا معاملہ کیسا ہے؟ حضرت کے اس مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے اگر آج ہم اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہیں، تو معاملہ نہایت نازک نظر آتا ہے. کیوں کہ جس علم کا مقصد اور محور اپنی فکر اور اصلاح کے بجائے، صرف دوسروں پر نظر ہوجائے، تو اس کا معاملہ خطرناک ہوجاتا ہے.
تکبیرات انتقال کا مسنون وقت یہ ہے کہ جہاں سے انتقال شروع ہو، وہیں سے تکبیر بھی شروع ہو، اور جہاں انتقال ختم ہو وہیں تکبیر بھی ختم ہو ، اگر کسی رکن میں پہنچنے کے بعد بھی تکبیر انتقالی ختم نہ ہوئی، تو یہ عمل خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مکر وہ ہوگا۔ (اہم مسائل/ج:۱/ص:۴۶)