آیۃ القران

قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ (۸۴) لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِيْنَ (۸۵)(سورۃ ص)

اللہ نے فرمایا: ”تو پھر سچی بات یہ ہے، اور میں سچی بات ہی کہا کرتا ہوں(۸۴) کہ میں تجھ (ابلیس) سے اور اُن سب سے جو ان میں سے تیرے پیچھے چلیں گے، جہنم کو بھر کر رہوں گا(۸۵)(آسان ترجمۃ القران)

એહમદાબાદના ઔલિયા

حدیث الرسول ﷺ

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَثَلُ الَّذِي يَرْجِعُ فِي صَدَقَتِهِ، كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَقِيءُ، ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ فَيَأْكُلُهُ(مسلم شریف/كتاب الهبات)

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اس شخص کی مثال جو اپنے صدقہ کو واپس لے لے، اس کتے کی سی ہے جو قے کر کے پھر اسی قے میں لوٹ کر اسے چاٹے“(تفہیم المسلم/ج:۲/ص:۷۲۵)

Download Videos

شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کڑوی کھیر کھاگئے

ایک مرتبہ حضرت مدنی کی کسی صاحب نے دعوت کی ، اور کھانے کے ساتھ دیگر اشیاء کے ساتھ تھوڑی سی کھیر بھی تیار کی ،جب حضرت مدنی نے اس کھیر کو کھایا تو بہت کڑوی تھی ۔ ممکن ہے مغالطہ سے ایلوا وغیرہ کوئی کڑوی چیز اس میں گر گئی ہو۔ حضرتِ مدنی نے اس خیال سے کہ میزبان کو تکلیف ہوگی اور اس کا دل دکھے گا، اس سے کھیر کے کڑوا ہونے کا ذکر نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ کھیر کی دیگچی لے آؤ ۔وہ اس کو لے آیا ۔ آپ نے کھانے میں شریک ہونے والے۔ ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کی یہ تمام کھیر میرے حصہ کی ہے آپ حضرات میں سے کوئی نہ کھائے ۔ چناچہ آپ نے وہ تمام کھیر اس انداز سے کھالی کہ میزبان اور تمام رفقاء یہ سمجھتے رہے کہ کھیر بہت اچھی لگی،لیکن جب میزبان نے دیگچی میں لگی ہوئی تھوڑی سی کھیر تبرکاً کھائی تو معلوم ہوا کہ کھیر تو بہت کڑوی تھی میزبان اور تمام رفقاء کو نہایت تعجب ہوا اور اُن کے حیرت کی انتہا نہیں رہی اس بات سے کہ حضرت نے میزبان کی دل آسائی کے لئے اور اسے دل شکنی سے بچانے کے لئے شدید تکلیف برداشت کی کہ نہایت کڑوی کھیر ساری کھاگئے اور کسی کو ظاہر بھی نہ ہونے دیا۔۔۔ یہ تھے ہمارے اکابرین

Naats

اہم مسئلہ

کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے کہنے پر غیر اللہ کیلئے مثلا کسی پیر، یا دیوی دیوتا کیلئے بکرا وغیرہ ذبح کرنا خواہ اجرت لے کر ہو یا بلا اجرت شرعاً ناجائز و حرام ہے ، نیز اس ذبیحہ کا کھانا بھی حرام ہے اور ایسے شخص کی اذان ، اقامت اور امامت مکروہ تحریمی ہے ، ہاں اگر وہ سچے دل سے توبہ کر لیں تو کراہت ختم ہو جائے گی۔(اہم مسائل/ج:۳/ص:۳۹)