آیۃ القران

وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا(۵۴)(آسان ترجمۃ القران)

اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس کو نسبی اور سسرالی رشتے عطا کیے، اور تمہارا پروردگار بڑی قدرت والا ہے۔(۵۴)(آسان ترجمۃ القران)

માસિક ઇસ્લામી માર્ગદર્શન (જન્યુઆરી)

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ نَعْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَهَا قِبَالَانِ(ابو داؤد شریف:۴۱۳۴)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے میں دو تسمے لگے ہوئے تھے۔(ابو داؤد شریف مترجم)

Download Videos

عبرت کے نشانات

یہ عالی شان محلات اور مکانات میں زندگی گزارنے والا انسان آئندہ ایک ایسے گھر (قبر) کی طرف جارہا ہوتا ہے جہاں یہ لیٹے گا تو اُٹھ نہیں سکے گا ـ اس کی قبر اس کے لیے اسی صورت میں جنت کا باغ بنے گی جب اس نے قبر کی تیاری کی ہوگی ـ قبر ہمارے لیے عبرت کا ایک مقام ہے ـ ایک عارف کہا کرتے تھے : "اے دوست! قبر پر غور کرو اور دیکھو کہ کیسے کیسے حسینوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے ـ " کتنے بے داغ چہرے تھے،ناز و نعمت میں پلے لوگ تھے، جو دنیا میں اپنی مَن مرضی کی زندگی گزارتے تھے، عیش و آرام کی زندگی رہتے تھے، محفل میں زعفرانی مسکراہٹیں بکھیرتے تھے اور لوگ ان کے چہروں کو دیکھتے رہ جاتے تھے،لیکن موت نے ان کو مٹی میں ملادیا،کیڑوں نے ان کے گوشت کو کھا لیا، آج ان کی ہڈیاں بوسیدہ پڑی ہوئی ہیں،آج اگر ان کی قبر کھود کر دیکھی جائے تو وہ عبرت کے نشانات بنے ہوئے ہیں ـ کہاں گئے ان کے زرق برق لباس جو وہ پہنا کرتے تھے؟کہاں گئیں وہ چیزیں جن کو صاف کرکے سمیٹ کر وہ رکھا کرتے تھے؟ کہاں گئے ان کے وہ معاملات جن کی خاطر وہ جان دیا کرتے تھے؟ وہ کاروبار نہ رہا،وہ مال نہ رہا،عزیز و اقارب نہ رہے،سب چیزیں یہیں چھوڑ کر یہ اکیلے اس دنیا سے اگلے سفر پر روانہ ہوگئے ـ ایک نوجوان کسی کو گھر کے حالات اور والد کی بیماری کے متعلق بتاتے ہوئے کہنے لگا : "میرے والد صاحب مرتے مرتے بچے ہیں" کسی بزرگ نے یہ بات سنی تو فرمایا: "عزیزم! تیرے والد صاحب بچتے بچتے مریں گے" میرے دوستو! ہفتے میں ایک دن قبرستان جایا کرو ـ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان وہاں جاکر اس "شہر خاموشاں" سے عبرت حاصل کرتا ہے ـ

Naats

اہم مسئلہ

مرد اور عورت کے لیے اپنے ہاتھ، پیر اور سینے کے بال صاف کرنا جائز تو ہے، مگر خلاف ادب اور غیر اولی ہے۔(اہم مسائل/ج:۸/ص:۲۹۸)