آیۃ القران

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵)(سورۃ المائدہ)

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی۔ (۳۵)(آسان ترجمۃ القران) وسیلہ سے یہاں مراد ہر وہ نیک عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ (آسان ترجمۃ القران) جہاد کے لفظی معنی کوشش اور محنت کرنے کے ہیں، قرآنی اصطلاح میں اس کے معنی عام طور سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے دشمنوں سے لڑنے کے آتے ہیں ؛ لیکن بعض مرتبہ دین پر عمل کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کو بھی جہاد کہا جاتا ہے، یہاں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔(آسان ترجمۃ القران)

રેહબરે તજવીદ

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى ، قَالَتْ : فَقُلْتُ : مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : أَمَّا إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً ، فَإِنَّكِ تَقُولِينَ : لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ ، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى ، قُلْتِ : لَا وَ رَبِّ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَتْ : قُلْتُ : أَجَلْ ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ(بُخاری شریف:۵۲۲۸)

صدیقہؓ کہتی ہیں: مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” میں سمجھ جاتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو، صدیقہ نے پوچھا: آپ یہ بات کس طرح پہچانتے ہیں؟ ( کیونکہ خوشی نا خوشی دل کی کیفیات ہیں، ان کو پہچاننے کے لئے قرائن چاہئیں) آپ نے فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ، رب محمد کی قسم ! اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ، رب ابراہیم کی قسم ! صدیقہ نے کہا: کیوں نہیں یعنی آپ کی یہ بات صحیح ہے نہیں چھوڑتی میں مگر آپ کے نام کو یعنی محبت اس وقت بھی دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔(تحفۃ القاری)

Download Videos

بزرگوں کی تواضع

جن بزرگوں کی باتیں سن اور پڑھ کر ہم لوگ دین سیکھتے ہیں۔ ان کے حالات پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ وہ لوگ اپنے آپ کو اتنا بے حقیقت سمجھتے ہیں جس کی حد و حساب نہیں۔ چنانچہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد میں نے اپنے بے شمار بزرگوں سے سنا وہ فرماتے تھے کہ : میری حالت یہ ہے کہ میں ہر مسلمان کو اپنے آپ سے فی الحال .. اور ہر کافر کو احتمالا اپنے آپ سے افضل سمجھتا ہوں ” اور کافر کو اس وجہ سے کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو کبھی ایمان کی توفیق دیدے. اور یہ مجھ سے آگے بڑھ جائے“۔ ایک مرتبہ حضرت تھانوی قدس اللہ سرہ کے خلیفہ خاص حضرت مولانا خیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضرت تھانوی صاحب کی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جتنے لوگ مجلس میں بیٹھے ہیں۔... سب مجھ سے افضل ہیں اور میں ہی سب سے زیادہ نکما اور ناکارہ ہوں ...... حضرت مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سن کر فرمایا کہ میری بھی یہی حالت ہوتی ہے.. دونوں نے مشورہ کیا کہ ہم حضرت تھانوی کے سامنے اپنی یہ حالت ذکر کرتے ہیں معلوم نہیں کہ یہ حالت اچھی ہے۔ یا بری ہے۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور اپنی حالت بیان کی کہ حضرت آپ کی مجلس میں ہم دونوں کی یہ حالت ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ کچھ فکر کی بات نہیں۔ اس لئے کہ تم دونوں اپنی یہ حالت بیان کر رہے ہو۔ حالانکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب میں بھی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو میری بھی یہی حالت ہوتی ہے کہ اس مجلس میں سب سے زیادہ نکما اور ناکارہ میں ہی ہوں۔ یہ سب مجھ سے افضل ہیں۔ یہ ہے تواضع کی حقیقت ارے جب تواضع کی یہ حقیقت غالب ہوتی ہے تو پھر انسان تو انسان ... آدمی اپنے آپ کو جانوروں سے بھی کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ )

Naats

اہم مسئلہ

بعض لوگ سلام ومصافحہ کے بعد اپنے ہاتھوں کو اپنے سینہ پر پھیرتے ہیں، جبکہ مصافحہ کے بعد سینہ پر ہاتھ پھیرنا نہ کسی حدیث میں مذکور ہے، اور نہ ہی فقہائے کرام نے کتب فقہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے، یہ محض ایک رواج ہے، اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔(اہم مسائل/ج:۳/ص:۲۹۱)