mahe siyam

Naats

آیۃ القران

لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَفْصِلُ بَیْنَكُمْ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۳)(سورۃ الممتحنہ)

قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں ہرگز تمہارے کام آئیں گی، اور نہ تمہاری اولاد۔ اللہ ہی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا، اور تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اسے پوری طرح دیکھتا ہے۔(۳)(آسان ترجمۃ القران)

حدیث الرسول ﷺ

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَزَالُ جَهَنَّمُ تَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ حَتَّى يَضَعَ فِيهَا رَبُّ الْعِزَّةِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدَمَهُ فَتَقُولُ قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ(مسلم شریف:٢٨٤٨)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: دوزخ لگا تار یہی کہتی رہے گی: ھل من مزید یعنی کیا کچھ اور بھی ہے؟ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ (اپنی شایان شان) اس میں اپنا قدم رکھے گا تو پھر دوزخ کہے گی، تیری عزت کی قسم! بس، بس اور اس کا ایک حصہ سمٹ کر دوسرے حصے سے مل جائے گا۔(تفہیم المسلم/ج:۳/ص:۱۰۸۴)

Download Videos

نبوت سے پہلے کی اجمالی سیرت

نبی ﷺ کا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جومتفرق طور پر لوگوں کے مختلف طبقات میں پاۓ جاتے ہیں۔ آپ ﷺ اصابت فکر ، دور بینی اور حق پسندی کا بلند مینار تھے۔ آپ ﷺ کوحسن فراست ، پختگی فکر اور وسیلہ ومقصد کی درستگی سے حظ وافر عطا ہوا تھا۔ آپ ﷺ اپنی طویل خاموشی سے مسلسل غور وخوض، دائمی تفکیر اور حق کی کرید میں مدد لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی شاداب عقل اور روشن فطرت سے زندگی کے صحیفے ، لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا۔ اور جن خرافات میں یہ سب لت پت تھیں ۔ ان سے سخت بیزاری محسوس کی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ان سب سے دامن کش رہتے ہوۓ پوری بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان زندگی کا سفر طے کیا۔ یعنی لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے ۔ ورنہ اپنی مقررہ تنہائی کی طرف پلٹ جاتے ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے شراب کو کبھی منہ نہ لگایا۔ آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا۔ اور بتوں کے لئے منائے جانے والے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی ۔ آپ ﷺ کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی حتی کہ لات وعز کی قسم سننا بھی آپ کو گوارا نہ تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ تقدیر نے آپ ﷺ پر حفاظت کا سایہ ڈال رکھا تھا۔ چنانچہ جب بعض دنیاوی تمتعات کے حصول کے لئے نفس کے جذبات متحرک ہوۓ یا بعض نا پسندیدہ رسم ورواج کی پیروی پر طبیعت آمادہ ہوئی تو عنایت ربانی دخیل ہو کر رکاوٹ بن گئی۔ ابن اثیر کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اہل جاہلیت جو کام کرتے تھے مجھے دو دفعہ کے علاوہ کبھی ان کا خیال نہیں گذرا۔ لیکن ان دونوں میں سے بھی ہر دفعہ اللہ تعالی نے میرے اور اس کے درمیان رکاوٹ ڈال دی۔ اس کے بعد پھر کبھی مجھے اس کا خیال نہیں گذرا یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اپنی پیغمبری سے مشرف فرمادیا۔ ہوا یہ کہ جو لڑکا بالائی مکہ میں میرے ساتھ بکریاں چرایا کرتا تھا اس سے ایک رات میں نے کہا کیوں نہ تم میری بکریاں دیکھو اور میں مکہ جا کر دوسرے جوانوں کی طرح وہاں کی شبانہ قصہ گوئی کی محفل میں شرکت کرلوں ۔ اس نے کہا ٹھیک ہے ۔اس کے بعد میں نکلا اور ابھی مکہ کے پہلے ہی گھر کے پاس پہنچا تھا کہ باجے کی آواز سنائی پڑی۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا ہے ، لوگوں نے بتلایا کہ فلاں کی فلاں سے شادی ہے ۔ میں سننے بیٹھ گیا۔ اور اللہ نے میرا کان بند کر دیا اور میں سو گیا ۔ پھر سورج کی تمازت ہی سے میری آنکھ کھلی ۔ اور میں اپنے ساتھی کے پاس واپس چلا گیا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے تفصیلات بتائیں ۔ اس کے بعد ایک رات پھر میں نے یہی بات کہی اور مکہ پہنچا تو پھراسی رات کی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ اور اس کے بعد پھر کبھی غلط ارادہ نہ ہوا ۔ صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو نبی ﷺ اور حضرت عباس پتھر ڈھور ہے تھے۔ حضرت عباس نے نبی ﷺ سے کہا۔ اپنے تہبند اپنے کندھے پر رکھلو پھر سے حفاظت رہے گی۔ لیکن آپ زمین پر جا گرے۔ نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں ۔افاقہ ہوتے ہی آواز لگائی میراتہبند۔ میراتہبند اور آپ کا تہبند آپ کو باندھ دیا گیا۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس کے بعد آپ کی شرمگاہ کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ نبی ﷺ اپنی قوم میں شیریں کردار ، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے لحاظ سے تو ممتاز تھے۔ چنانچہ آپ سب سے زیادہ با مروت ، سب سے خوش اخلاق ، سب سے معزز ہمسایہ سب سے بڑھ کر دوراندیش ، سب سے زیادہ راست گو سب سے نرم پہلو سب سے زیادہ پاک نفس، خیر میں سب سے زیادہ کریم ،سب سے نیک عمل سب سے بڑھ کر پابند عہد اور سب سے بڑے امانت دار تھے۔ حتی کہ آپ کی قوم نے آپ ﷺ کا نام ہی’’امین‘ رکھ دیا تھا۔ کیونکہ آپ احوال صالحہ اور خصال حمیدہ کا پیکر تھے ۔ اور جیسا کہ حضرت خدیجہ ﷺﷺ کی شہادت ہے ۔ آپ ﷺ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے تھے ۔ تہی دستوں کا بندوبست فرماتے تھے۔ مہمان کی میزبانی کرتے تھے۔ اور مصائب حق میں اعانت فرماتے تھے۔

اہم مسئلہ

فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنا مسنون ہے، اور احادیث میں اس کے بڑے فضائل وارد ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے وہ اگلی نماز تک اللہ تعالیٰ کے ذمہ میں ہوتا ہے ، اسی طرح ایک حدیث میں وارد ہے کہ جو شخص فرض نماز کے بعد آیة الکرسی پڑھے اُس کے جنت میں داخل ہونے سے سوائے موت کے کوئی چیز مانع نہیں ہے یعنی وہ سیدھا جنت میں داخل ہوگا، مگر سر پر ہاتھ رکھ کر آیت الکرسی پڑھنا مسنون نہیں ہے، البتہ فی نفسہ جائز ہے۔(اہم مسائل/ج:۹/ص:۵۲)