Heart Touching Track| Kamal Aya, Nabi ka lab par jo zikr he be misal aaya | Abdullah Mehboob | New Naat Sharif 2024

Naats

آیۃ القران

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵)(سورۃ المائدہ)

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی۔ (۳۵)(آسان ترجمۃ القران) وسیلہ سے یہاں مراد ہر وہ نیک عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ (آسان ترجمۃ القران) جہاد کے لفظی معنی کوشش اور محنت کرنے کے ہیں، قرآنی اصطلاح میں اس کے معنی عام طور سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے دشمنوں سے لڑنے کے آتے ہیں ؛ لیکن بعض مرتبہ دین پر عمل کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کو بھی جہاد کہا جاتا ہے، یہاں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔(آسان ترجمۃ القران)

حدیث الرسول ﷺ

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى ، قَالَتْ : فَقُلْتُ : مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : أَمَّا إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً ، فَإِنَّكِ تَقُولِينَ : لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ ، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى ، قُلْتِ : لَا وَ رَبِّ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَتْ : قُلْتُ : أَجَلْ ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ(بُخاری شریف:۵۲۲۸)

صدیقہؓ کہتی ہیں: مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” میں سمجھ جاتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو، صدیقہ نے پوچھا: آپ یہ بات کس طرح پہچانتے ہیں؟ ( کیونکہ خوشی نا خوشی دل کی کیفیات ہیں، ان کو پہچاننے کے لئے قرائن چاہئیں) آپ نے فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ، رب محمد کی قسم ! اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ، رب ابراہیم کی قسم ! صدیقہ نے کہا: کیوں نہیں یعنی آپ کی یہ بات صحیح ہے نہیں چھوڑتی میں مگر آپ کے نام کو یعنی محبت اس وقت بھی دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔(تحفۃ القاری)

Download Videos

غیبت سے بچنے کا آسان راستہ

مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ غیبت سے چنے کا آسان راستہ یہ ہے کہ دوسرے کا ذکر کرو ہی نہیں نہ اچھائی سے ذکر کرو اور نہ برائی سے ذکر کرو کیونکہ یہ شیطان بڑا خبیث ہے۔ اس لئے کہ جب تم کسی کا ذکر اچھائی سے کرو گے کہ فلاں شخص بڑا اچھا آدمی ہے۔ اس کے اندر یہ اچھائی ہے تو دماغ میں یہ بات رہے گی کہ میں اس کی غیبت تو نہیں کر رہا بلکہ اچھائی سے اس کا ذکر کر رہا ہوں لیکن پھر یہ ہو گا کہ اس کی اچھائیاں بیان کرتے کرتے شیطان کوئی جملہ در میان میں ایسا ڈال دے گا جس سے وہ اچھائی برائی میں تبدیل ہو جائے گی مثلاً وہ کہے گا کہ فلاں شخص ہے تو بڑا اچھا آدمی .. مگر اس کے اندر فلاں خرابی ہے یہ لفظ ”مگر “ آکر سارا کام خراب کر دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ گفتگو کا رخ غیبت کی طرف منتقل ہو جائے گا اس لئے حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ دوسروں کا ذکر کرو ہی نہیں۔ نہ اچھائی سے نہ برائی سے اور اگر کسی کا ذکر اچھائی سے کر رہے ہو تو ذرا کمر کس کے بیٹھو تاکہ شیطان غلط راستے پر نہ ڈال دے۔

اہم مسئلہ

بعض لوگ سلام ومصافحہ کے بعد اپنے ہاتھوں کو اپنے سینہ پر پھیرتے ہیں، جبکہ مصافحہ کے بعد سینہ پر ہاتھ پھیرنا نہ کسی حدیث میں مذکور ہے، اور نہ ہی فقہائے کرام نے کتب فقہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے، یہ محض ایک رواج ہے، اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔(اہم مسائل/ج:۳/ص:۲۹۱)