‎بسم اللہ الرحمن الرحیم ۹ نومبر ' یومِ اقبال یعنی اقبال کی پیدائش کا دن آداب سحر خیزی انگلستان کا برفیلا علاقہ ' زمستانی ہوائیں 'ہر طرف عیسائیت کا غلغلہ' ایمانی چرچوں کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں' حالات بالکل مخالف اور ناموافق' شب تاریک کا بے چین کر دینے والا سکوت اور ایک بندۂ مومن اپنے نرم وگرم بستر سے اٹھتا ہے'جسم و روح کو کپکپا دینے والے ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہے'مصلی بچھاتا ہے اور دو گانہ ادا کرتا ہے' عجز کا دامن پھیلا کر رب کی کبریائی بیان کرتا ہے ' راز و نیاز کرتا ہے' سردی کے ماحول میں اس کے گرم گرم آنسو رب کے حضور بہکر بندۂ مومن کے رخسار پر لکیریں بنا لیتے ہیں' کبھی ہچکیاں بندھ جاتی ہے تو کبھی آواز لڑکھڑا جاتی ہے اور ایسا روزانہ ہوتا ہے اور جب بندۂ مومن اپنے قلم پر قابو پاتا ہے تو ان سردی کی راتوں کا راز یوں فاش ہوتا ہے ہے کہ: گر چہ زمستانی ہوا میں تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے جس سے لندن میں بھی آدابِ سحرخیزی اقبال ایسے ہی اقبال نہیں بنے ۔کئی بار ملت کا درد ان سرد راتوں میں آنسوؤں کی شکل بنا کر آنکھوں کے چشموں سے سے جاری ہوا ہوگا اور اور ان ساکت و صامت راتوں میں کتنی مرتبہ امت کی بد حالی اور تنزلی کے شکوے اپنے رب کے پاک دربار میں سنائے ہوں گے۔تب جا کر کے اقبال کو شعر و سخن اور اس میں درد و گداز اور سوز وساز کا وہ تحفہ ملا ہوگا جسے سننے والا مسحور اور اور پڑھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ہے سچ ہے اقبال نے ہی تو کہا تھا: عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی 🖋🖋انس نرولوی🖋🖋

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

خدمت کا اخلاقی پہلو: ایک عورت کی کہانی

خدمت کا اخلاقی پہلو: ایک عورت کی کہانی

شیخ محمد راوی سے ایک عورت نے سوال پوچھا کہ ان کے شوہر کی والدہ بیمار رہتی ہیں۔ شوہر تقاضا کرتا ہے کہ میں ان کے ماں کی خدمت کروں اور  مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا۔ کیا مجھ پر شوہر کے ماں کی خدمت واجب ہے؟ شیخ نے جواب دیا نہیں تجھ پر شوہر کے ماں کی خدمت ہرگز واجب نہیں ہے ہاں البتہ تمہارے شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی ماں کی خدمت کرے۔ پھر شیخ نے تین حل پیش کیے پہلا حل والدہ کو گھر لیکر آئیں اور دن رات آپ کے شوہر اور اس کے بچے اپنی ماں اور دادی کی خدمت کرے ان پر یہ واجب ہے یاد رکھیں آپ پر واجب نہیں ہے۔ دوسرا حل والدہ کو الگ گھر میں رکھیں اور انکی دیکھ بھال خدمت و خبر گیری کے لیے وہاں جاتا رہے اگر والدہ یہ تقاضا کرے کہ رات ان کے سرہانے گزارے تو ماں کے پاس رات رکنا ان پر واجب ہے، یاد رکھیں آپ پر واجب نہیں ہے۔ تیسرا حل والدہ کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس رکھ لیں اگر نرس کے لیے تنخواہ دینے میں حرج ہو تو گھر کے اخراجات کم کرکے نرس کی تنخواہ دے، نرس کی موجودگی میں والدہ کے پاس آتے جاتے فتنے میں پڑنے کا خطرہ ہو نرس سے شادی کرنا واجب ہوگا، اس طرح وہ تین نیکیوں کو جمع کرے گا دوسری شادی کا اجر، ماں کی خدمت کا اجر اور فتنے سے بچنے کا اجر ۔ البتہ آپ پر شوہر کے ماں کی خدمت واجب نہیں ہے، لہذا آپ عزت کے ساتھ اپنے گھر رکی رہیں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد عورت بولی، شیخ صاحب شوہر کی ماں بھی میری ماں جیسی ہے واجب نہیں تو مستحب سہی میں خود اسکی خدمت کروں گی۔ منقول