اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ (۱)
لوگوں کے لئے ان کے حساب کا وقت قریب آپہنچا ہے، اور وہ ہیں کہ غفلت کی حالت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں(سورۃ الانبیاء آسان ترجمۃ القران)
Fans
Fans
Fans
Fans
admin | 12 April, 2024
admin | 12 April, 2024
admin | 30 March, 2024
admin | 30 March, 2024
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : إِنَّمَا النَّاسُ كَالْإِبِلِ الْمِائَةِ لَا تَكَادُ تَجِدُ فِيهَا رَاحِلَةً .
میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ٬ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لوگوں کی مثال اونٹوں کی سی ہے ۔ سو میں سے بھی ایک مشکل سے سواری کے قابل ملتا ہے (کتاب: بُخاری شریف)
آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،
قسم کھاتے وقت قرآن کریم ، تو رات یا انجیل وغیرہ مقدس کتابوں پر ہاتھ رکھنا قسم کے صحیح ہونے کے لیے لازم نہیں ہے، ان کتابوں پر ہاتھ رکھے بغیر بھی قسم صحیح ہو جاتی ہے، لیکن اگر قسم کی تاکید اور قسم کھانے والا جھوٹی قسم نہ کھائے ، اس بات سے اُسے ڈرانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے، تو اس کی اجازت ہے۔ (الفتاوی الہندیۃ :۵۲،۵۱/۲) (ماخوذ از : درسی و علمی اہم مسائل ص:۳۱۴)