Shamsuzzuha he badrudduja he Aqa hamare Maula hamare

Naats

آیۃ القران

قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا (سورہ طہ)

موسیٰ نے کہا: اچھا تو جا، اب زندگی بھر تیرا کام یہ ہوگا کہ تو لوگوں سے یہ کہا کرے گا کہ مجھے نہ چھونا۔ اور (اس کے علاوہ ) تیرے لئے ایک وعدے کا وقت مقرر ہے جو تجھ سے ٹلایا نہیں جاسکتا۔ اور دیکھ اپنے اس (جھوٹے ) معبود کو جس پر تو جما بیٹھا تھا! ہم اسے جلا ڈالیں گے، اور پھر اس ( کی راکھ ) کو چورا چورا کر کے سمندر میں بکھیر دیں گے۔ (آسان ترجمۃ القران)

حدیث الرسول ﷺ

لا تَدعُوا عَلى أَنْفُسِكُم، وَلا تدْعُوا عَلى أَولادِكُم، وَلاَ تَدْعُوا عَلَى أَمْوَالِكُم، لا تُوافِقُوا مِنَ اللَّهِ سَاعَةً يُسأَلُ فِيهَا عَطاءً، فيَسْتَجيبَ لَكُم رواه مسلم (مشکوۃ المصابیح)

ترجمه: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد اپنے مال اور نفس پر بد دعا نہ کرو، ایسانہ ہوکہ اللہ کی طرف سے تمہیں وہ گھڑی مل جائے جس میں اللہ تعالیٰ دعا کو قبول کرتا ہے، پس اس میں تمہاری بد دعاء قبول ہو جائے ۔“

Download Videos

قانون توڑنا جائز نہیں

آج ہمارے معاشرے میں یہ فضا عام ہوگئی ہے کہ قانون شکنی کو ہنر سمجھا جاتا ہے۔قانون کو علانیہ توڑا جاتا ہے۔اور اس کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سمجھا جاتا ہے، یہ ذہنیت درحقیقت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جب ہم ہندوستان میں رہتے تھے،اور وہاں انگریز کی حکومت تھی، انگریز غاصب تھا ، اس نے ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا،اور مسلمانوں نے اس کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی،۸۵۸۱؁ء کے موقع پر اور بعد میں بھی اس کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ جاری رہا،اور انگریز کی حکومت کو مسلمانوں نے کبھی دل وجان سے تسلیم نہیں کیا،لہذا ہندوستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ قانون توڑو،کیوں کہ انگریز کی حکومت جائز حکومت نہیں ہے،اگرچہ بعض علماء اس فتوی کی مخالفت کرتے تھے،بہر حال اس وقت قانون توڑنے کا ایک جواز تھا، اب قانون توڑنا جائز نہیں۔ لیکن انگریز کے چلے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تو یہ ایک معاہدے کے تحت وجود میں آیا اس کا ایک دستور اور قانون ہے،اور پاکستان کے قانون پر بھی یہی حکم عائد ہوتا ہے کہ جب تک وہ قانون ہمیں کسی گناہ پر مجبور نہ کرے اس وقت تک اس کی پابندی واجب ہے،اس لیے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس لیے ہم اس کے قانون کی پابندی کریں گے،

اہم مسئلہ

بعض لوگ خصوصیت سے رمضان کے آخری جمعہ ( الوداع ) میں نئے کپڑے پہنتے ہیں، اور مشہور ہے کہ آخری جمعہ کو جس قدر نئے کپڑے پہن لو، اس کا کوئی حساب و کتاب نہ ہوگا اس کا جواب یہ ہے کہ هَاتُوا بُرهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ( یعنی اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو دلیل بیان کرو(احکام اعتکاف 66)